کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ کچی آبادیاں کراچی کے لئے نئی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ آبادیاں پچاس سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہیں اور رہائشیوں کی تیسری نسل ان مکانات میں مقیم ہے۔ 1980 کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے چلا کرتی تھی تو یہ آبادیاں اسی طرح موجود تھیں، 1999 میں جب کراچی سرکلر ریلوے کو بند کر دیا گیا تو بھی یہ آبادیاں اسی طرح موجود تھیں۔ جب یہ آبادیاں اپنی اس حد سے آگے نہیں بڑھیں تو کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں رکاوٹ کیسے قرار دی جا سکتی ہیں؟ بے دخلی اور بے گھر ہونے کا یہ خطرہ چند دنوں یا مہینوں پر نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہے اور اس کے ساتھ میں ان رہائشیوں کی اپنے گھروں کو بچانے کی 17 سالہ جدوجہد بھی شامل ہے۔
یہاں کے رہائشی اپنے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کیا جا رہا ہے۔ بس پہلے یہ معاملہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کے ساتھ تھا پھر اسے چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک کر دیا گیا مگر یہاں ہم مسماری و بے دخلی کے جس حوالے سے بات کر رہے ہیں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے تحت کی جانے والی مسماری و بے دخلی ہے۔
یہ کہانی 2003 سے شروع ہوئی، جب چار سال بعد وفاقی حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا اعلان کیا اور اس منصوبے پر عملدرآمد کی ذمہ داری جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کو سونپی گئی تھی۔ جائیکا نے 2009 میں کراچی سرکلر ریلوے سے متاثرہ 28 آبادیوں میں ایک وسیع سروے شروع کیا اور دو سال کی مدت میں اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (EIA) کی رپورٹ اور متاثرین کے لئے دوبارہ آبادکاری ایکشن پلان بنایا۔ جس کے مطابق، 2011 میں اس منصوبے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی تعداد 4،653 اور افراد کی مجموعی تعداد 45،000 سے زائد تھی۔ جائیکا نے ’پراجیکٹ سے متاثرہ افراد‘ کے لئے ایک جامع معاوضے کے ساتھ آبادکاری کا بہتر منصوبہ پیش کیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان متاثرین کو کراچی اربن ٹرانسپورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کی مہر کے ساتھ آفر لیٹر دیے گئے تھے، جس میں جمعہ گوٹھ، شاہ لطیف ٹاؤن میں 80 مربع گز مکانات کی تعمیر اور ساتھ 50،000 روپے فی گھر مالیاتی معاوضہ بھی شامل تھا تاہم بعد میں جائیکا اس منصوبے سے علیحدہ ہو گیا اور یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پھر 2015 میں اس منصوبے کو زبردستی چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک کیا گیا تو حکومت نے اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (EIA) کی رپورٹ کو شامل کرلیا جبکہ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ایکشن پلان کے مندرجات کو پوری طرح نظرانداز کردیا۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت یہ منصوبہ کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچے گا کہ سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے احکامات جاری کیے تو اعلیٰ حکام نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ بہت سی کچی آبادیاں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 9 مئی 2019 کو سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے متعلقہ اراضی کو فوری طور پر کلیئر کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی وزارت ریلوے کو حکومت سندھ کے ساتھ مل کر شہر ی منصوبہ سازوں اور ماہرین کی مشاورت سے متاثرین کو ایک سال کی مدت میں متبادل رہائش فراہم کرنے کی ہدایت بھی دی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں 15 مئی 2019، گذشتہ رمضان کے مہینے میں کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیوں میں انسداد تجاوزات مہم شروع کی گئی جس میں متعدد چھوٹے پیمانے کے تجارتی مراکز کے ساتھ ساتھ تقریباً ساڑھے پانچ سو مکانات اور ساڑھے چار سو جھگیاں مسمار کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں پندرہ سو سے زائد خاندان متاثر ہوئے۔ اس آپریشن سے متاثرہ بستیوں میں غریب آباد، قائداعظم کالونی، واحد کالونی، مجاہد کالونی، موسی کالونی، گیلانی اسٹیشن اور اردو کالج شامل تھیں۔ تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے اور رہائشی بحالی منصوبے کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں۔
رمضان میں مسماری و بے دخلی
پچھلے سال رمضان کے مہینے میں شدید گرمی تھی اور پارہ 40 ڈگری تک پہنچ چکا تھا۔ قا ئداعظم کالونی اور غریب آباد کے لوگ اپنے کام کاج پہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک پولیس اور ریلوے کے عملے نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی بلڈوزرز پہنچ گئے اور بغیر کسی نوٹس کے گھروں پر دھاوا بول کر ان کی واحد پناہ گاہ کو مسمار کردیا۔ یہ ناممکن ہے کہ حکام پچھلی پانچ دہائیوں سے ان آبادیوں کے وجود سے بے خبر تھے یا یہ بستیاں سرکاری اہلکاروں کی مدد کے بغیر ہی وجود میں آئیں اور ان آبادیوں کو سیاسی جماعتوں کی مدد اور مداخلت کے بغیر بجلی، گیس اور پانی سمیت بنیادی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ دوسری اہم بات کہ اگر ان رہائشیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تو ان کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی قانونی حیثیت کیا ہوئی؟
کھلے آسمان تلے آج ایک سال گزرنے کے باوجود جب ہم ان آبادیوں بالخصوص قائداعظم کالونی جاتے ہیں تو حقیقی معنوں میں لوگوں کو اپنے گھر کے ملبے پر رہتا دیکھتے ہیں اس سے قبل 'کھلے آسمان کے نیچے' ایک محاورے کی حد تک سنا تھا لیکن قائداعظم کالونی میں اس کا اصل مظہر دیکھا۔
معاشرے کا یہ کمزور ترین طبقہ آج ایک سال گزر جانے کے باوجود اسی ملبے پر، کھلے آسمان تلے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا ہے اور منتظر ہے کہ کب اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے دوسرے حصے پر عمل درآمد کرتے ہوئے انہیں متبادل رہائش فراہم کی جائیگی۔
پیچیدہ معاشرتی مسائل
ان بستیوں کے رہائشیوں نے اپنی زندگی کی پوری بچت ان مکانوں میں لگائی تھی اس مسماری نے انھیں سالوں پیچھے دھکیل دیا۔ اس انہدام کے نتیجے میں متعدد دیگر پیچیدہ معاشرتی مسائل سامنے آئے ہیں جیسے کہ خواتین کو بیت الخلا اور پردے کی کمی کے باعث انتہائی مشکلات کا سامنا ہے اور سکول جانے والے بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت دوبارہ آبادکاری کا مطالبہ
متاثرین اپنے منہدم مکانات کے بدلے میں دوبارہ آبادکاری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور رہائشیوں کے مطالبات بلاجواز نہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے انسداد تجاوزات آپریشن سے متاثرہ تمام مکینوں کی دوبارہ آبادکاری پر بھی زور دیا ہے۔ لیکن حکام نے منتخب طور پر سپریم کورٹ کے حکم کے اس حصے پر عمل درآمد کیا جس سے لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس سلسلے میں کئی احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے جب کہ مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی گئی اور اربن ریسورس سینٹر، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، عوامی ورکرز پارٹی، کراچی اربن لیب سمیت سول سوسائٹی کے ممبران نے متاثرین کی فوری آبادکاری کا مطالبہ کیا مگر حکام کے کانوں پے جوں تک نہ رینگی۔
اربن ریسورس سینٹر کی ممبر اور ماہر سماجیات سیما لیاقت کہتی ہیں کہ ایک سال سے یہ بے گھر لوگ ملبے پر بیٹھے ہیں اور بیک وقت غربت، موسم اور کرونا وائرس کے آگے مجبور و بے بس ہیں۔ ایسے میں حکومت کی یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے کہ گھر پہ رہیں، محفوظ رہیں۔ اس طرح کی صورتحال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب تک کسی آبادی میں رہنے والے لوگوں کے لئے دوبارہ آبادکاری کے منصوبے کا فیصلہ نہ ہوجائےاسے مسمار نہ کیا جائے۔