لاک ڈائون کی بازگشت کے فوراً بعد سب سے پہلا نزلہ مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں پر گرا۔ لیکن اس رسہ کشی میں تبلیغی جماعت پھر بھی اجتماع کر ہی گئی۔ مذہبی طبقے نے اعتراض اٹھایا جو کہ سو فیصد درست ہے کہ کیا کرونا صرف مذہب دشمن ہے؟
بازاروں میں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ ریسٹورنٹس بھی چل رہے ہیں اور کچھ ریسٹورنٹس تو من پسند لوگوں کو من پسند بندوبست بھی فراہم کر رہے ہیں۔ میڈیا ہائوسز بھی چل رہے ہیں، ٹاک شوز، مارننگ شوز، گیم شوز بھی چل رہے ہیں۔ رمضان کی سوغات نائٹ کرکٹ بھی زوروشور سے جاری ہے۔ اکثر پولیس کی گاڑیاں بھی آس پاس سے خاموشی سے گزر جاتی ہیں لیکن میچ جاری رہتے ہیں۔ ایسے میں یوم علیؓ کے جلوس نے حکومتی کارکردگی کا مکمل طور پر جلوس نکال دیا۔
معاملات یہاں تک پہنچتے ہی نہ اگر حکومت تمام مسائل کا بروقت حل تلاش کرتی۔ آپ نے تبلیغی اجتماع ہونے دیا، بازاروں میں آپ کی ناک کے نیچے بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ ٹی وی پر تماشے جاری ہیں۔ راتوں کو کرکٹ بھی چل رہی ہے۔ جلوس بھی نکل رہے ہیں۔ کیا کرونا کسی ایک طبقے کے لئے خطرناک ہے؟ کیا کرونا کسی خاص فرقے کو نشانہ بناتا ہے؟ کیا کرونا دائیں اور بازو کی سیاست میں فرق کرتا ہے؟
حکومتی نااہلی نے اس طبی مسئلے کو خوامخواہ مسلکی مسئلے میں بدل دیا۔ اور اگر حکومتی غیر سنجیدگی کا عالم یہی رہا تو خدا جانے یہ مسئلہ کیا کیا شکل اپنائے گا۔ دیکھتے جائیے۔