معروف اینکر پرسن آفتاب اقبال نے گذشتہ روز پنجابی زبان کا تذکرہ کرتے ہوئے پوٹھوہاری ،سرائیکی اور پنجاب کی دیگر لسانی اکائیوں کوپنجابی زبان کے لہجے قرار دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بولی جانے والی تمام زبانیں پنجابی زبان کا حصہ ہیں۔ پنجابی زبان تناور درخت ہے اور باقی سب شاخیں ہیں۔جس پر بعض سرائیکی بولنے والوں نے غم و غصہ کے اظہار میں گالم وگلوچ سے کام لیا جوکسی بھی زبان کے دفاع کا انتہائی غیرمناسب رویہ ہے۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس صرف لفظ سرائیکی ہے۔زبان کی تاریخ و ادب کے حوالے سے کوئی مواد نہیں ہے۔
سرائیکی زبان سندھی اور پنجابی کے ملاپ سے سندھ اور پنجاب کے راستوں میں بنائی گئی سراوں میں پیداہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی میں سندھی اور پنجابی زبان کی آمزش زیادہ ہے۔ سراوں کی مناسبت سے ہی سرائیکی کالفظ اخذ کیا گیا ہے۔ جس طرح پنج آب سے پنجابی ہے۔
پنجاب میں بولی جانے والی تمام زبانیں پنجابی زبان کی شاخیں ہیں یا لہجے ہیں اور اک لسانی خاندان ہے۔ کسی سرائیکی، پوٹھوہاری ، ہندکو ،ملتانی یا دیگر کو پنجاب بھر میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئی کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں ہوتا ہے۔ کوئی سرائیکی ،پوٹھوہاری اور ہندکو بولنے والا پنجابی سے بات کرنے کےلئے اردو کا سہارا نہیں لیتا ہے۔ بلکہ پنجابی میں بات کرتا ہے۔ جس طرح پنجابی،سندھی ،بلوچی اور پشتو میں رابطے کی زبان اردو ہے۔ اسی طرح سرائیکی،پوٹھوہاری اور دیگرپنجابی کی چائلڈزبانوں میں پنجابی رابطے کی زبان ہے۔ ان میں کوئی بھی زبان ماں یا بہن کا درجہ نہیں رکھتی ہے. بلکہ یہ سب زبانیں پنجابی کی بچہ زبانیں ہیں ۔ ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کا لہجہ ہر 25 کلومیٹر کے بعد بدل جاتا ہے اور کئی لہجے وجود میں آجاتے ہیں۔ جس طرح پنجابی زبان کے بہت سے لہجے ہیں۔
پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی ہے۔ ماجھی لہجہ پنجابی زبان کے 8 ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ہاری، ہندکو، ' شاہپوری اور جھنگوچی ہے۔ جبکہ ضمنی لہجوں کے 31 ذیلی لہجے ہیں۔
پوادھی لہجہ بھارتی پنجاب کے اضلاع؛ کھرار ' کورالی ' روپر ' نورپور بیدی ' مورنڈہ ' پیل ' راجپورہ ' سمرالا میں بولا جاتا ہے۔ بانوالی لہجہ بھارتی پنجاب کے علاقے ہریانہ کے علاقے بانوالی میں بولا جاتا ہے۔ بھٹیانی لہجہ ہریانہ کے ضلع حصار میں بولا جاتا ہے اور بیکانیر کے راٹھے بولتے ہیں۔ باگڑی لہجہ بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں بولا جاتا ہے اور بیکانیر کے باگڑی اور راٹھور بولتے ہیں۔ لبانکی لہجہ راجستھان ' گجرات اور پاکستانی پنجاب کے جنوب کے علاقے کے لبانہ قبیلے کے لوگ بولتے ہیں۔ کانگڑی وگری کا ذیلی لہجہ ہے۔ یہ لہجہ ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑہ میں بولا جاتا ہے۔چمبیالی پہاڑی کا ذیلی لہجہ ہے۔ یہ ھماچل پردیش کے ضلع چمبہ میں بولا جاتا ہے۔
پونچھی بھی پہاڑی کا ذیلی لہجہ ہے۔ یہ لہجہ آزاد کشمیر کے ضلع چمبہ اور دیگر وسطی اضلاع میں بولا جاتا ہے۔
پوٹھوہاری کے 5 ذیلی لہجے ہیں۔
گوجری لہجہ جنوبی آزاد کشمیر اور شمالی مغربی پنجاب میں بولا جاتا ہے۔آوانکاری لہجہ پوٹھوہاری کے ذیلی لہجے گھیبی سے بھی مماثلت رکھتا ہے اورمیانوالی میں بولا جاتا ہے۔ گھیبی لہجہ تحصیل فتح جنگ اور تحصیل پنڈی گھیب میں بولا جاتا ہے۔ آوانکاری سے کافی حدتک مماثلت رکھتا ہے۔ چھاچھی لہجہ ضلع اٹک ' ہزارہ ڈویژن اور آس پاس کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختوا کے علاقوں میں بولا جاتا ہے۔ چھاچھی لہجہ کا نام ضلع اٹک کے علاقے چھاچھ سے اخذ کیا گیا ہے۔جاندلی یاروہی لہجہ چھاچھی اور شاہ پوری کے ذیلی لہجہ تھلوچی کا مکسچر ہے۔ تحصیل جنڈ اور میانوالی ضلع میں بولا جاتا ہے۔
ہندکوکے 3 ذیلی لہجے ہیں۔ سوائیں لہجہ ضلع اٹک کی وادی سواں میں بولا جاتا ہے۔ یہ وادی دریائے سواں کے شمال میں واقع ہے۔پشوری یاپشاوری لہجہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بولا جاتا ہے۔ پشاور شہر میں اس زبان کو بولنے والوں کو پشاوری یا خارے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔کوہاٹی لہجہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں بولا جاتا ہے۔ کوہاٹ شہر میں اس زبان کو بولنے والوں کو کوہاٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
شاہ پوری کے 5 ذیلی لہجے ہیں۔دھنی لہجہ ضلع چکوال ' جہلم اور اٹک میں بولا جاتا ہے۔ دھنی لہجہ کا نام ضلع چکوال میں واقع وادیء دھن سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس علاقے کو دھنی کا علاقہ کہا جاتا ہے۔
چکوالی لہجہ بھی ضلع چکوال میں بولا جاتا ہے۔ چکوال کا علاقہ محل وقوع کے اعتبار سے شمالی کی طرف ضلع راولپنڈی ' جنوب کی طرف ضلع جہلم ' مشرق کی طرف خوشاب اورمغرب کی طرف میانوالی سے ملتا ہے۔
بھیروچی لہجہ ضلع سرگودھا کے شہر بھیرہ میں بولا جاتا ہے۔ یہ پنچاب کا قد یم ترین شہر ہے۔ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی راجہ پورس سے لڑائی میں اس کا مشہور گھوڑا "بیوس فیلس" مارا گیا۔ بیوس فیلس کو قدیم زبان سنسکرت میں بھیرہ کہتے ہیں۔
سکندر کو اس کی موت سے بہت دکھ ہوااور گھوڑے کے نام پر شہر بنادیا۔ مشہور چینی سیاح فاھیان نے اپنے سفرنامے میں بھیرہ شہر کا ذکر کیا ہے۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح "تزک بابری" میں بھیرہ کا ذکر کیا ہے۔ 1300 سال قبل بھیرہ علم و فن سیکھنے کی اہم جگہ تھی۔ لوگ یہاں طب کا علم اور جغرافیہ کا علم سیکھنے دور دراز سے آتے تھے۔ یہ سرزمین صو فیوں کی آماجگاہ تھی۔ بھیرہ کی نسبت سے اس لہجے کو بھیروچی لہجہ کا نام دیا گيا ہے۔
تھلوچی یاتھلی لہجہ تھل میں بولا جاتا ہے.یہ لہجہ دریائے سندھ کے مشرقی جانب ضلع بھکر،ضلع لیہ ' ،ضلع مظفرگڑھ میں بولا جاتا ہے اور مغربی جانب صوبہ خیبرپختوااہ کے ڈیرہ اسماعیل خان ' بنوں اور ٹانک اضلاع میں بولا جاتا ہے۔ڈیرہ والی لہجہ تھلوچی / تھلی کا مکسچر ہے۔ ضلع ڈیرہ غازی خان ’ راجن پور اور خیبرپختوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بولا جاتا ہے۔
جھنگوچی کے 10 ذیلی لہجے ہیں۔بار دی بولی کا لہجہ ضلع گوجرانوالہ میں دریا چناب کے کنارے پر غیر کاشت علاقے میں بولا جاتا ہے۔وزیرآبادی لہجہ ضلع گوجرانوالہ کے شہر وزیر آباد میں بولا جاتا ہے۔
رچنوی لہجہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بولا جاتا ہے۔ جبکہ ساہیوال ' چنیوٹ اور فیصل آباد کے اضلاع میں بھی بولاجاتا ہے۔جٹکی لہجہ ضلع ساہی وال میں دریائے راوی اور دریائے ستلج کے کنارے کے علاقے میں بولا جاتا ہے۔ چناوری لہجہ ضلع جھنگ میں دریائے چناب کے مغربی جانب بولا جاتا ہے اور چناوری نام دریائے چناب سے نکلا ہے۔ کاچی یاکاچھڑی ضلع جھنگ میں دریائے جہلم کے دائیں کنارے پر بولا جاتا ہے۔ ملتانی لہجہ ملتان اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں بولا جاتا ہے۔ 1920ء میں ماھر لسانیات گریسن نے برصغیر کی زبانوں کے دورے کے دوران اسے مغربی پنجابی یا لہندا کہا۔ 1962ء میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک الگ زبان ہے اور اسے سرائیکی کا نام دیا گیا ہے۔جافر یاکھیترانی لہجہ تھلوچی / تھلی کے مکسچر لہجے ڈیروالی میں بلوچی اور سندھی کی آمیزش سے وجود میں آیا اور بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل اور بارکھان میں بولا جاتا ہے۔ریاستی بہاولپوری لیجہ بہاولپور اور رحیم یار خان کے اضلاع میں بولا جاتا ہے۔ اسے بہاولپوری بھی کہا جاتا ہے۔ ریاستی نام ریاست کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ علاقہ بہاولپور ریاست کا حصہ تھا۔
راٹھی یا چولستانی لہجہ چولستان میں بولا جاتا ہے۔ اسے چولستانی بھی کہا جاتا ہے۔ چولستانی نام چولستان کے صحرا کی وجہ سے ہے۔
زبان اور لہجے میں فرق یوں معلوم کر سکتے ہیں کہ کوئی اپنی زبان میں بات کر رہا ہوتو دوسری زبان بولنے والے بالکل سمجھ نہ سکیں کہ کیا بات کررہا ہےاور اگر انہیں سمجھ آرہی ہے تو پھر وہ لازمی اسی زبان کا لہجہ ہے۔
پنجاب میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پشتون آپس میں بات کررہے ہوں تو پنجابی بالکل سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ دو پشتون آپس میں کیا بات کررہے ہیں۔یہ زبان کا فرق ہے ۔اگر سرائیکی بات کررہے ہوں تو پنجابی آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ سرائیکی کیا بات کررہے ہیں۔ لہجے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو زبان بن جاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات پوٹھوہاری ،سرائیکی ،ہندکو اورکسی لیجے کو زبان کا درجہ نہ بھی دیں تو کم ازکم پوٹھوہاری ،سرائیکی اور ہندکو اکائیوں کا درجہ ضرور حاصل کر چکی ہیں ۔بطور اکائی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے