گذشتہ ایک ہفتے کے حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو یہ نئی صورتحال کچھ اس میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ ایک طرف تو حکومتی اتحادی گذشتہ ہفتے یہ کہہ کر اس قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر چکے ہیں کہ ان کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی اور وہ ان قوانین پر قائل نہیں ہیں۔ اب یکایک وہ اپنا مؤقف بدلیں گے تو یہ بھی اچنبھے کی بات نہیں البتہ ان جماعتوں کے لئے سبکی کی بات ضرور ہوگی کیونکہ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ یا تو پہلے اعتراضات سرے سے تھے ہی نہیں اور محض حکومت کو بلیک میل کرنے کی نیت سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اتحادی قائل نہیں ہیں، یا پھر اعتراضات اب بھی دور نہیں ہو سکے مگر کہیں اوپر سے ایسا حکم آ گیا ہے کہ تمام جماعتوں کو اس کی تعمیل کرنا ہی ہوگی۔
یاد رہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق حکومت پر کھل کر تنقید کر چکی ہیں اور دونوں ہی جماعتیں اتحاد چھوڑنے کی واضح دھمکیاں دے چکی ہیں۔ ایم کیو ایم کہہ چکی ہے کہ حکومت ان کو مشاورتی عمل میں کہیں شریک نہیں کرتی اور بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے غربت میں پستے عوام ہم سے سوال کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ حکومت کی پالیسیوں کا بوجھ مزید اٹھاتے چلے جائیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ق کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہم تو حکومت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہمیں ساتھ چلانا نہیں چاہتے اور سوموار کو ایکسپریس ٹریبیون میں یہ خبر بھی چھپی کہ ق لیگ حکومتی اتحاد چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے۔
ایک اور پہلو بھی مد نظر رکھا جانا ضروری ہے کہ حکومتی جماعت خود تو کہہ رہی تھی کہ اس نے یہ اجلاس اس لئے مؤخر کیا ہے کہ یہ اپوزیشن کو اس حوالے سے قائل کرنا چاہتی ہے۔ فواد چودھری خود کہہ چکے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو اس سلسلے میں اسپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن سے ایک بار پھر رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے، تاکہ ایک متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لایا جا سکے۔ ہمیں امید ہے اپوزیشن ان اہم اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہم پاکستان کے مستقبل کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے، تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہم اصلاحات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
اب اگر حکومت کا یہ مؤقف درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جانا چاہیے کہ اپوزیشن سے مشاورت مکمل ہو جانی چاہیے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کہہ چکی ہے کہ حکومت ہم سے بات کرنا چاہتی ہے تو لکھ کر ایجنڈا دے تاکہ اس مشاورتی عمل کو بعد میں این آر او مانگنے کا الزام لگانے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔
تو پھر یہ اجلاس یکایک بلانے کا فیصلہ کیونکر ہوا؟
سینیئر صحافی نجم سیٹھی نے ہفتے کی شام ٹوئیٹ کی تھی کہ ان کی چڑیا کے مطابق حکومت کے اتحادی شراکت داروں کو اسٹیبلشمنٹ سے ہدایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی بلوں کی حمایت کریں۔ اگر یہ درست ہے تو اپوزیشن جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کے متعلق حال ہی میں قائم کیے گئے تاثر کہ وہ غیر جانبدار ہو چکے ہیں، پر نظرِ ثانی کر لینی چاہیے۔ تاہم، پیر کی شام 24 نیوز پر اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان رابطے ضرور موجود ہیں لیکن فی الحال کوئی ڈیل فائنل نہیں ہوئی۔ جب تک یہ ڈیل فائنل نہیں ہو جاتی، اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ ایک ایسی صورتحال میں پھنس جائے کہ دوسری طرف سے یقین دہانیاں لیے بغیر ہی عمران خان کو اس حد تک ناراض کر دیا جائے کہ وہ اپنے ہاتھ میں موجود چند ایسے پتے کھیلنے پر تیار ہو جائیں جو ملکی آئین ان کو کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ آمنے سامنے کی لڑائی میں عین ممکن ہے کہ وہ ایسا کچھ کر گزریں۔
دوسری جانب اتحادی جماعتیں بھی دیکھ رہی ہیں کہ ان کے پاس عمران خان کو بلیک میل کرنے کا تو یہ بہترین موقع ہے لیکن دوسری طرف انہیں کوئی واضح پیشکش تو ملی نہیں ہے۔ ایسے میں انہیں کیا فائدہ ہوگا اگر چودھری برادران اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اپوزیشن کے گھر پہنچ جائیں اور وہاں اندر سے انکار ہو جائے کہ ہمارے پاس تو جگہ ہی نہیں ہے آپ کو اپنے ساتھ لینے کی۔
نجم سیٹھی کے مطابق ان تمام معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فی الحال اس نظام کو چلایا جائے، یہ قانون سازی ہونے دی جائے اور مناسب موقع پر حکومت سے بھی نمٹ لیا جائے۔
نجم سیٹھی یقیناً اطلاعات کی بنیاد پر ہی تجزیہ کرتے ہیں لیکن یہاں ایک چیز جو بھولنی نہیں جانی چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی کا حربہ محض پی ٹی آئی کے فائدے کی چیز تو تھا نہیں۔ یوں بھی اسے استعمال تو انہی لوگوں نے کرنا ہے جن کے پاس ان مشینوں تک رسائی ہوگی اور اگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ ریموٹ کنٹرول مل جاتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں جو پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں، انتخابات جیتنے کے لئے ان کا انحصار اسی ریموٹ کنٹرول کے مالک پر مزید بڑھ جائے گا۔ ڈیل ہو بھی جائے، اسٹیبلشمنٹ یہ ہتھیار ہاتھ سے جانے کیوں دے؟
آخر میں، کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت کے ساتھ وہ بھی ہو سکتا ہے جو سینیٹ انتخابات میں ہوا تھا کہ جب تمام تر حکومتی اختیار کے باوجود یوسف رضا گیلانی نے سابق مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے دی تھی۔ اگر اس بار ایسا ہوتا ہے تو یہ یقیناً عمران حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا جس کے بعد اس کا گھر جانا محض ایک رسمی کارروائی کا ہی محتاج رہ جائے گا۔ حکومت بچ گئی تو اگلا راؤنڈ چند ہفتوں بعد کھیلا تو جانا ہی ہے۔ بدھ کی شام تک اس معاملے پر سٹے بازی البتہ جاری رہے گی۔