لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن اور جسٹس مزمل اختر شبیر پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ کی اپیلوں پر سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے درخواستوں کی مخالفت کی اور قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا جب کہ ن لیگ کی امیدوار شائستہ پرویز کے وکیل بیرسٹر احمد قیوم نے بھی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا۔ 2 رکنی بنچ نے اپیل کنندہ سے استفسار کیا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ کیس میں تاخیر ہورہی ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ تاثر نہ دیں کہ عدالتوں کی وجہ سے کیس میں تاخیر ہو رہی ہے، آپ دلائل دیں، ہم سن لیتے ہیں.
وکیل اپیل کنندہ نے موقف اختیار کیا کہ ووٹر سرٹیفیکیٹ پر حلقہ کا نمبر نہیں لکھا ہوتا، ہمیں میڈیا سے علم ہوا کہ ہمارا تجویز کنندہ اس حلقے سے نہیں اور الیکشن کمیشن کی ووٹر لسٹیں ناقص ہیں۔ وکیل درخواست گزاران نے مزید کہا کہ میں نے علم ہونے پر ریٹرننگ افسر کو متبادل پیش کرنے کی اجازت مانگی اور یہ درخواست مقررہ وقت سے پہلے دی تھی، میرے تجویز کنندہ اور ان کی فیملی کے بھی اس حلقہ میں ووٹ ہیں۔
وکیل درخواست گزاران نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے دانستہ حلقہ بندی میں غلطی کی، الیکشن کمیشن نے 3ہزار 24 ووٹوں کو این اے 133 میں شامل کر لیا جب کہ اس حلقہ کے ووٹوں کی تعداد آبادی سے زیادہ ہے۔ وکیل اعتراض کنندہ نے موقف اختیار کیا کہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کا متعلقہ حلقہ سے ہونا ضروری ہے، عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر وقت کیلئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد ازاں سناتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ کی اپیلیں مسترد کردیں اور ریٹرنگ آفیسر اور ہائیکورٹ کے الیکشن ایپلیٹ ٹربیونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔