تین سال بعد دیا گیا بیانِ حلفی بظاہر جھوٹا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ صحافی انصار عباسی پر برہم

11:08 AM, 16 Nov, 2021

اسد علی طور
صُبح 9:45 یعنی پونے دس بجے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا تو باہر میڈیا کی سیٹلائٹ گاڑیوں کا رش دیکھ کر اپنی کار کافی پہلے پارک کردی۔ چلتا ہوا داخلی واک تھر گیٹ پہنچا تو پولیس اہلکار نے صحافیوں کے رجسٹر میں اندراج کا کہتے ہوئے رجسٹر میری طرف بڑھایا تو میں نے جیب سے قلم نکال لیا۔ پولیس اہلکار نے مُسکرا کر رجسٹر کھولتے ہوئے بتایا کہ قلم رجسٹر کے اندر رکھا تھا کیونکہ آپ صحافی لوگوں کے پاس قلم نہیں ہوتا لیکن آپ پہلے ہیں جو قلم کے ساتھ آئے ہیں۔ اپنا اندراج کرکے اندر آگیا۔ ٹہلتا ہوا چیف جسٹس کی عدالت کے باہر پہنچا تو اُستادِ مُحترم مطیع اللہ جان کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور اُن سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔ مطیع بھائی نے گذشتہ وی لاگ کے چند جملوں پر سراہا اور پھر ہم آج کے سوموٹو نوٹس پر گفتگو کرنے لگے جِس میں بعد ازاں جنگ جیو گروپ کے صحافی اعزاز سید اور اویس یوسفزئی بھی شریک ہوگئے۔

تھوڑی دیر گزری تو دی نیوز کے سینئر تحقیقاتی صحافی عُمر چیمہ “پارٹیاں کھڑی ہیں” کہتے ہوئے آگئے۔ چند لمحوں بعد اُردو نیوز کے ایڈیٹر رپورٹنگ وسیم عباسی بھی اپنی مخصوص مُسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ سماعت کا وقت تو 10 بجے مُقرر تھا لیکن بینچ نہیں آیا تھا۔ اِسی دوران ن لیگی رہنما عطااللہ تارڑ بھی پہنچ گئے، اُن سے مطیع اللہ جان نے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایک قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے سماعت دیکھنے آئے ہیں۔ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے ہی سوال پر عطااللہ تارڑ نے بتایا کہ وہ کل جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کے بینچ کے سامنے میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں میں ضرور پیش ہوں گے۔ عطااللہ تارڑ کے اِس جواب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ن لیگ اِس بیانِ حلفی کو بُنیاد بنا کر کم از کم اگلی سماعت پر جسٹس عامر فاروق پر اعتراض کا ارادہ نہیں رکھتی۔

تھوڑی دیر میں دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، ایڈیٹر عامر غوری اور سینئر صحافی انصار عباسی نیشنل پریس کلب اور آر آئی یو جے کی باڈی بشمول افضل بٹ، صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم، سیکریٹری انور رضا اور آر آئی یو جے کے صدر عامر سجاد سید کے گھیرے میں نمودار ہوئے۔ سماعت میں تاخیر کی وجہ سے میر شکیل الرحمان، عامر غوری اور انصار عباسی باہر صحافیوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے تو اے آر وائے کے صحافی حسن عبداللہ نے موبائل پر وڈیو ریکارڈ کرتے ہوئے میر شکیل الرحمان سے سوال پوچھا کہ جب بھی نوازشریف مُشکل میں ہوں تو جنگ گروپ مدد کو کیوں آتا ہے؟ میر شکیل الرحمان نے جواب دینے سے گریز کیا تو مطیع اللہ جان نے چُٹکلا چھوڑا، یہ اے آر وائے "مائنس ایم" کا سوال تھا۔

چند منٹ باہر انتظار کے بعد تمام صحافی اور نوٹس کا جواب دینے آئے میر شکیل الرحمان، عامر غوری اور انصار عباسی کمرہِ عدالت میں چلے گئے۔ چند لمحوں بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی آ گئے۔ انصار عباسی بینچ کے جنگلے کے بالکل ساتھ کھڑے تھے جبکہ میر شکیل الرحمان اور عامر غوری اُن کے پیچھے کھڑے تھے۔ کمرہِ عدالت کا سامنے کا حصہ صحافیوں اور وُکلا سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اِسی دوران صحافیوں کے دفاع کے لیے قائم پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفینس کمیٹی کے رُکن عُثمان وڑائچ بھی آگئے۔ اسٹوری کے میرٹ اور آج کے نوٹس پر تحفظات بیان کرتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ یہ نوٹس لے کر عدالت نے اِس اسٹوری کو اور بڑا کردیا ہے۔ صحافی مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ جو بیانِ حلفی پہلے کسی عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا تھا اب وہ اِس نوٹس کی وجہ سے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بننے جارہا ہے۔ 10 بج کر 42 منٹ پر چیف جسٹس اطہر مِن اللہ کمرہِ عدالت میں آئے تو کسی کو معزز جج کے احترام میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ سب پہلے ہی کھڑے تھے البتہ کمرہِ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔

معزز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بیٹھتے ہی سب سے پہلی نظر سینئرصحافی انصار عباسی، ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری اور ایڈیٹرانچیف دی نیوز میر شکیل الرحمان پر ڈالی۔ چیف جسٹس نے میر شکیل الرحمان کو مخاطب کرکے کہا کہ شکیل صاحب میں بہت معذرت خواہ ہوں کے مُجھے آپ کو طلب کرنا پڑا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اِس عدالت پر عوام کا اعتماد کتنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم ایک خودمُختار آئینی عدالت ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا بھاری دل سے کہوں گا کہ آزادیِ صحافت بہت ضروری ہے لیکن سوشل میڈیا اور اخبار میں فرق ہونا چاہیے کیونکہ اخبار کا ایک ایڈیٹوریل ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر مِن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ کی خبر سے اِس عدالت کا تاثر خراب ہوا ہے جو عوام کو بغیر کسی دباو میں آئے انصاف فراہم کررہی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آبزرویشن دی کہ مُجھے اپنے ججز پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وضاحت کی کہ اِس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور ہم ہمیشہ تنقید برداشت کرتے ہیں لیکن اگر عوام کا ہم پر اعتماد ختم ہوگیا تو سب ختم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تمہید باندھنے والے انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے میر شکیل الرحمان سے استفسار کیا کہ آپ ایک بڑے ادارے کے ایڈیٹر انچیف ہیں، میرے خلاف سوشل میڈیا پر مُہم چلتی رہی کہ لندن میں فلیٹ لیا ہے تو اگر کوئی آپ کو بیانِ حلفی بھجوا دیتا تو آپ فرنٹ پیج پر خبر شائع کردیتے؟ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے کیا کر دیا؟ چیف جسٹس نے جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمان کو حُکم دیا کہ وہ اپنی خبر کی ہیڈ لائن پڑھیں۔ میر شکیل الرحمان نے واسکٹ کی جیبوں پر ہاتھ مارتے ہوئے جواب دیا کہ اُن کا نظر کا چشمہ معلوم نہیں کِدھر رہ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اب سینئر صحافی انصار عباسی کو حُکم دیا کہ ہیڈلائن پڑھیں۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ پہلے کُچھ بولنا چاہتے ہیں لیکن چیف جسٹس نے ٹوک دیا اور دوبارہ دی نیوز میں گزشتہ روز چھپی خبر کی ہیڈلائن پڑھنے پر زور دیا۔ انصار عباسی نے ہیڈ لائن پڑھ لی تو چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اِس عدالت کے ججز پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ کسی سے ہدایات لیتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ بیانِ حلفی کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ تھا؟ چیف جسٹس نے اشارہ دیا کہ یہ بیانِ حلفی لندن میں دیا گیا اور وہاں کی نوٹری سے تصدیق کروائی گئی جِس کے نتائج ہوں گے۔ چیف جسٹس نے انصار عباسی سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ نوازشریف کیوں الیکشن سے پہلے رہا نہ ہوئے؟ اور پھر چیف جسٹس نے خود ہی جواب دیتے ہوئے بتایا کہ 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سُنائی اور سزا کے خلاف انہوں نے جولائی کے دوسرے ہفتے میں جب اپیل دائر کی تو اُس وقت جسٹس عامر فاروق اور میں چُھٹی پر پاکستان سے باہر گئے ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے جولائی 2018 کے عدالتی واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک سال سے کوئی جج ڈویژن بینچ میں نہیں بیٹھ رہا تھا، یہ کیس جسٹس میاں گُل اورنگزیب اور جسٹس مُحسن اختر کیانی کے روبرو 17 جولائی 2018 کو سماعت کے لیے مُقرر ہوا۔ سابق وزیرِاعظم کے وُکلا خواجہ حارث اور امجد پرویز بھٹی وغیرہ نے جلد سماعت کی کوئی درخواست نہیں دی اِس کے باوجود عدالت نے اُنکو 31 جولائی کی تاریخ دے دی۔ چیف جسٹس نے سوال اُٹھایا کہ اگر تاریخ الیکشن سے بعد کی دی جا رہی تھی کیونکہ بار بار ہم یہ سُنتے ہیں کہ نوازشریف کو الیکشن سے پہلے نہیں چھوڑنا تھا تو نوازشریف کے وُکلا نے الیکشن کے بعد سماعت مُقرر کرنے پر کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا؟ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ کا کہنا تھا کہ قریب دو ہفتے تک غیر معمولی طور پر روازنہ سماعت کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائیں معطل کرکے میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کردیا۔ چیف جسٹس نے سینئر صحافی انصار عباسی سے سوال پوچھا کہ کیا انہوں نے عدالتی ریکارڈ سے یہ سب چیک کیا؟ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے اسٹوری سے جج کا نام نکال کر تمام ججز کو مشکوک بنا دیا۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے آبزرویشن دی کہ لوگوں میں باتیں شروع ہوگئی ہیں کہ یہ ڈویژن بینچ کون بناتا ہے کیونکہ اتنے بڑے اخبار نے اسٹوری کردی ہے۔

اِس کے بعد چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا مُحمد شمیم کے بیانِ حلفی کو نشانہ بناتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی جج کے سامنے کوئی دوسرا جج عدالتی معاملات پر اثر انداز ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا تو جِس جج کے سامنے یہ سب ہورہا تھا اُس کو چاہیے تھا وہ اُس ہی وقت سُپریم جوڈیشل کمیشن کو لکھتا۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے سابق وزیرِاعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس مُحسن اختر کیانی کے سامنے زیرِسماعت اپیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جب ایک کیس کی سماعت ہورہی تھی تو یہ بیان حلفی سامنے آجاتا ہے اور ایک بڑا اخبار چھاپ بھی دیتا ہے۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ کا کہنا تھا کہ آپ عدالت پر تنقید کریں لیکن انصاف کی فراہمی یقینی بنانے والے انتظامی معاملات پر شکوک مت پیدا کریں۔ اِس موقع پر کافی دیر سے خاموش کھڑے انصار عباسی نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ کُچھ کہہ لوں؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اب کیا کہنا ہے آپ نے کیونکہ نُقصان تو پہنچ چُکا ہے۔

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کی طرف سے نوٹس پر اُنکے وکیل بیٹے آئے ہوئے تھے، انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اُنکے چچا یعنی سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے بھائی کا 6 نومبر کو انتقال ہوگیا تھا جِس بنا پر وہ آج عدالت میں پیش نہیں ہوسکے اور اُنکو اپنے بھائی کی وفات کے بعد رسومات کی ادائیگی کے لیے وقت دیا جائے، جِس کے بعد وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوں گے۔ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے بیٹے نے عدالت سے فیصل واوڈا کے گزشتہ روز جج کو جوتے مارنے کے بیان کا نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے اجازت مانگی کہ وہ فیصل واوڈا کے بیان کی وڈیو کمرہِ عدالت میں چلانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ٹی وی پر اول فول بکتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے جواب دیا کہ وہ علیحدہ سے درخواست دیں تو وہ اُس کی الگ سماعت کرلیں گے لیکن اِس زیرِسماعت معاملہ کا فیصل واوڈا کے معاملے کو حصہ نہیں بنائیں گے۔

اب چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ بیانِ حلفی بظاہر جھوٹا لگ رہا تو اُس پر آپ کیا کہیں گے؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ اِس پر توہینِ عدالت کی سزا سُنائی جاسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اُنہیں یہ سُن کر حیرت ہوئی کہ سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بھائی کا انتقال 6 تاریخ کو ہوا جِس کے لیے وہ اُنکی تدفین میں تو شریک نہیں ہوئے لیکن لندن نوٹری کے پاس اپنے بیانِ حلفی کی تصدیق کروانے چلے گئے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ جِس انداز میں اور جِس وقت پر یہ بیانِ حلفی جاری کیا گیا ہے وہ بہت معنی خیز اور اہم ہے۔

چیف جسٹس اطہر مِن الله نے دوبارہ سینئر صحافی انصار عباسی کی طرف رُخ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ اگر آپ کہیں گے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ یا اِس کا کوئی جج کسی سے ہدایت لیتا ہے یا کسی سے گھر پر مُلاقات کرتا ہے یا چیمبر میں بُلاتا ہے تو میں جوابدہ ہوں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا میں تمام ججز کا دفاع کروں گا۔ جب چیف جسٹس اطہر مِن اللہ جج کے گھر مُلاقات والے ریمارکس دے رہے تھے نوٹس لیتے ہوئے میں مُسکرانے لگا کیونکہ میرے ذہن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر اور بیانِ حلفی کے جُملے آگئے تھے۔ بہرحال چیف جسٹس روانی میں یہ سب کہہ گئے اور اُنکی برہمی کی وجہ سے شاید کسی نے اُنہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی یاد کروانے کی ہمت بھی نہ کی۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنی خبر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے پیشہ وارانہ انداز میں خبر دی۔ انصار عباسی کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف گلگت بلتستان کے چیف جسٹس تھے اور دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار تھے۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے سینئر صحافی انصار عباسی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ جی نہیں یہ خبر اسلام آباد ہائیکورٹ کے خلاف تھی۔ جسٹس اطہر مِن اللہ نے ریمارکس دئیےکہ آپ ثبوت لائیں میں کاروائی کروں گا۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے حیرت سے جواب دیا کہ سر میں صحافی ہوں، میسنجر ہوں میں کہاں سے ثبوت لاؤں؟ ثبوت تو آپ بیانِ حلفی والوں سے مانگیں میں نے تو صرف خبر دی ہے۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر سینئر صحافی انصار عباسی کی دلیل رد کرتے ہوئے کہا کہ جی نہیں آب میسنجر نہیں ہیں۔ انصار عباسی نے پھر اپنی خبر کا دفاع کیا کہ انہوں نے دونوں سابق چیف جسٹس صاحبان سے خبر کی تصدیق کی اور رائے کو خبر کا حصہ بنایا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اب ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری کی طرف رُخ کیا اور اُنہیں پوچھا کہ اگر برطانیہ میں ایسا کوئی معاملہ ہوتا تو کیا گارڈین اخبار خبر چھاپتا؟ ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری نے انتہائی تحمل سے جواب دیا کہ اگر معاملہ عوامی مُفاد اور دلچسپی کا ہوتا تو ضرور چھاپتا۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے مُداخلت کرتے ہوئے کہا کہ خبر میری ہے آپ میرے خلاف کاروائی کریں۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے عامر غوری اور میر شکیل الرحمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اِن دونوں کا کوئی قصور نہیں خبر میری ہے میں جوابدہ ہوں۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنی خبر کا دفاع کرتے ہوئے عدالت کو یقین دلایا کہ اُنہوں نے خبر عدالت کی عزت کی خاطر کی ہے۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے فوری مُداخلت کی کہ یہ عدالت کی عزت میں نہیں تھی بلکہ آپ نے خبر سے پوری عدالت کو مشکوک بنا دیا۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے معزز چیف جسٹس اطہر مِن اللہ سے استدعا کی خبر میں بیان کردہ باتوں کی انکوائری کروائی جائے۔ چیف جسٹس نے اُن کی استدعا کو رد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ وہ کیوں انکوائری کروائیں؟ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ کا کہنا تھا کہ کل کوئی اُنکے خلاف بیان حلفی دے تو اُس کی بھی انکوائری شروع ہو جائے گی؟ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے ایک بار پھر سینئر صحافی انصار عباسی سے پوچھا کہ آپ کے حساب سے خبر بنتی تھی؟ انصار عباسی نے جواب دیا بالکل کیونکہ میرے پاس ایک چیف جسٹس کا بیانِ حلفی تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ بیان حلفی کسی عدالت میں پیش ہوا؟ انصار عباسی نے پھر دہرایا کہ وہ صرف میسنجر ہیں۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے ایک بار پھر کہا کہ اُنہوں نے بھاری دل سے اِس کا نوٹس لیا ہے۔ صحافی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ اُنکے خبر کرنے میں کوئی بدنیتی نہیں تھی۔

چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے اِس موقع پر سماعت ختم کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ وہ سب کو شوکاز نوٹس کررہے ہیں۔ شوکاز نوٹس کا حُکم لِکھواتے ہوئے جب چیف جسٹس نے لکھوایا کہ یہ بیانِ حلفی بظاہر جھوٹا لگتا ہے تو سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا مُحمد شمیم کے بیٹے تلخی سے بولے کہ جھوٹا کیسے ہے؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کیونکہ تین سال بعد یہ بیانِ حلفی دیا گیا۔ سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیٹے نے مزید تلخی سے جواب دیا تو اُس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جب سماعت ختم ہورہی تھی تو سینئر صحافی انصار عباسی نے عدالت کو یقین دلایا کہ میں عدالت کی دل سے بہت عزت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ تیزی سے بولے کہ نہیں چاہیے ہمیں آپ سے عزت۔ اِس کے بعد چیف جسٹس اطہر مِن اللہ اُٹھ کر کمرہِ عدالت سے چلے گئے۔

کمرہِ عدالت سے باہر نکل کر سینئر صحافی انصار عباسی سے جب راقم نے پوچھا کہ کیا وہ شوکاز نوٹس کے جواب میں معافی مانگیں گے یا خبر کا دفاع کریں گے؟ انصار عباسی نے جواب دیا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں اور خبر کا دفاع کریں گے چاہے عدالت جو مرضی سزا سُنائے۔
مزیدخبریں