اس کے بعد مرحوم جج ارشد ملک نے ناصر بٹ کے ذریعہ میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے مقدمہ کے دوران ہونے والے تمام واقعات سے انہیں آگاہ کیا۔ سنا ہے کہ اس ملاقات میں کی گئی گفتگو کو بھی ایک ویڈیو میں محفوظ کیا گیا اور اسی ویڈیو کے بارے میں ہم آئے دن سنتے ہیں کہ وہ ریلیز ہونے والی ہے لیکن تا حال وہ ریلیز نہیں کی گئی۔
دوسری طرف اسلام اباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے پنڈی بار کے سامنے حلفاً بیان دیتے ہوئے جن کرداروں کا صاف الفاظ میں ذکر کیا اس نے عوام کو ایک بار پھر چونکا دیا کہ وطن عزیز میں یہ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جن کرداروں کا جسٹس شوکت صدیقی نے ذکر کیا ان سے تو کوئی باز پرس نہ ہوئی البتہ جسٹس صاحب کو سچ بولنے پر عہدہ سے فارغ کر دیا گیا۔ واضع رہے کہ ان تمام واقعات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان مرحوم نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے حکومت کے خلاف ہونے والی سازش کے ایک کردار کا ذکر کیا تھا۔ یہاں بھی اس سازشی کردار سے تو جوابدہی نہ کروائی جا سکی البتہ سینیٹر صاحب کو استعفیٰ دینا پڑ گیا۔
اور آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج جناب رانا شمیم کی جانب سے ایک بیان حلفی جاری ہوا ہے جس میں وہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے میری موجودگی میں ہائی کورٹ کے جج کو فون کر کے کہا کہ انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز جیل سے باہر نہ آنے پائیں۔
مندرجہ بالا تمام واقعات میں سابق چیف جسٹس ثاقب ثنار اور خفیہ محکمہ کے اعلیٰ افسران کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ان تمام اشخاص کے خلاف مقدمہ قائم کر کے مکمل غیر جانبداری سے تفتیش کی جائے اور مجرموں کو قرار واقع سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یہ جراؑت نہ کر سکے اور وطن عزیزہر چند سال بعد عدم استحکام کا شکار ہونے بچ جائے۔