نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے معاملے پر بھی گفتگو کی، ان کا کہنا تھا کہ تاثر کچھ نہیں ہوتا، حقیقت ہوتی ہے اور کسی جرنلسٹ کو حقیقت کے اوپر ہی بات کرنی چاہیے۔ میں خود جنگ گروپ میں کام کرتا ہوں لیکن میں اس کی بعض پالیسیوں کا بہت بڑا ناقد ہوں جبکہ انصار عباسی کے مذہبی رجحانات اور خیالات کو میں بالکل پسند نہیں کرتا لیکن بطور ایک سینئر صحافی میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ آج یہ خبر کسی کی پاس ہوتی تو وہ اسے ضرور شائع کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی انصار عباسی ہے جس نے سب سے پہلے بتایا تھا کہ افتخار چوہدری کو فارغ کیا جا رہا ہے، ہمیں محنت کرنی چاہیے حسد نہیں کرنا چاہیے، وہ بہت ساری اندر کی خبریں لے آتے ہیں۔
اعزاز سید نے کہا کہ جس اطہر من اللہ کو ہم جانتے ہیں وہ بڑے کھلے دل کے آدمی ہیں، وہ عدالت میں بار بار کہتے رہے میں نے آپ کو بڑے بوجھل دل سے بلایا ہے، انصار عباس کو آپ نے بلایا تھا تو انہیں بھی بات کرنے کیلئے وقت دینا چاہیے تھا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عدالت نے خود فیصلہ کیا کہ یہ توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اگر توہین عدالت کی کاروائی ہے تو اس میں عدالت کے سربراہ کا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے برادر جج کا دفاع کریں، یہ مناسب نہیں ہے، وہ ان کے وکیل نہیں ہیں۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے شہباز میاں کا کہنا تھا کہ مجھے یہ معاملہ سیاسی لگ رہا ہے۔ رانا شمیم کی غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگی جب وہ گلگت بلتستان کے چیف جج تھے۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
شہباز میاں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انصار عباسی پاکستان کی تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہیں، آپ ان کی ذاتی رائے سے تو اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ ایک معتبر صحافی ہیں۔ لیکن اس کیساتھ ساتھ وہ جس ادارے میں کام کرتے ہیں وہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا ہائوس جنگ گروپ ہے۔ اس لئے کچھ شکوک وشبہات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ جنگ گروپ کسی ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔ الزام تو یہ بھی ہے کہ دی نیوز کے رپورٹر صبح اٹھتے ہیں تو ان نام سے خبر چھپ چکی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اانصار عباسی صاحب نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کے حوالے سے کو خبر دی ہے اس میں سے بالاخر کچھ نہیں نکلے گا۔ اس کیس میں صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوگی۔
انہوں نے ماضی میں انصار عباسی کی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2008ء میں انہوں نے بریکنگ نیوز دی کہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف پر حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ اس خبر کو کسی طرح بھی ثابت نہیں کر سکے۔