میڈیا سنسرشپ کا آغاز 1948 میں ہو گیا جب مسلم لیگ نے تین رسالوں پر پابندی لگائی

02:23 PM, 16 Nov, 2022

فیصل سلیم
ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے، یہ جاننے کا تجسس انسان کی فطری جبلت کا حصہ ہے۔ اس تجسس کی تشفی صحافتی مواد سے ممکن ہوتی ہے جو مختلف اشکال میں معاشرے کے تقریباً ہر باسی کو میسر ہے۔ لیکن بعض اوقات حکومت اسی صحافتی مواد کو اظہار رائے کی آزادی کی حدوں سے نکلتا ہوا تصور کرتی ہے اور اس پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے۔ صحافی یا صحافتی مواد پر پابندیاں لگاتے ہوئے ایسے موضوعات پر بات کرنے سے روک دیا جاتا ہے جو سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہوں یا ان اداروں کے مطابق یہ ایسا مواد ہوتا ہے جو ملک میں سیاسی و سماجی یا مذہبی انتشار پھیلانے کا سبب بن رہا ہو۔
پاکستان میں سنسرشپ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی کتاب 'Mass Media in Pakistan' کے مطابق پاکستان میں سنسرشپ کا آغاز 1948 ہی میں ہو گیا تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کی حکومت نے تین ترقی پسند رسالوں پر ایک سال کی پابندی عائد کر دی تھی اور ان کے مدیران کو 1948 کے سیفٹی ایکٹ آرڈیننس کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔

قیام پاکستان سے آج تک میڈیا انڈسٹری (پرنٹ، براڈکاسٹ، الیکٹرانک، سوشل) کو قابو میں رکھنے کے لئے مختلف قوانین نافذ کئے جاتے رہے ہیں۔ ان قوانین کے ذریعے ہر حکومت نے میڈیا کو اپنے انداز اور اپنے حق میں استعمال کرنے کی مختلف نوعیت کی کوششیں کی ہیں۔

ان قوانین میں سب سے زیادہ سخت قانون ایوب خان کے مارشل لا کے زمانے میں 2 ستمبر 1963 کو پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کے نام سے نافذ کیا گیا۔ اسے کے بعد نیشنل پریس کمیشن 1973 میں نافذ کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا میں نجی چینلز کے آغاز کے بعد 2002 میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 (پیکا) استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان قوانین کے سبب بہت سارے اخبارات، جرائد اور رسائل مارکیٹ میں آئے اور حکومتی پابندیوں کی نذر ہو گئے۔ صحافتی ادارے اور صحافی صرف انہی قوانین کا شکار نہیں ہوتے بلکہ انہیں مالی بندشوں کے باعث بھی صحافت سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی فیکٹ فائنڈگ رپورٹ 'پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر پابندی' کے مطابق صحافیوں، ایڈیٹرز اور ٹی وی اینکرز کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان میں پرنٹ اور براڈکاسٹ میڈیا میں اظہار رائے کی آزادی میں مداخلت اور سرکولیشن یا نشریات میں مداخلت کی تصدیق کی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا کی بلا تعطل عوامی رسائی کے لئے اشتہارات معاشی طور پر ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ بی بی سی کی 2013 میں شائع ہونے والی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحافتی اداروں کو سبسکرپشن کی مد میں 25 فیصد آمدن وصول ہوتی ہے جبکہ 75 فیصد آمدن کا ذریعہ اشتہارات ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اشتہارات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ حکومت ہی ہے۔

گزشتہ دور حکومت میں پاکستان تحریک انصاف نے موجودہ قوانین یعنی پیمرا 2002، پریس کونسل آرڈیننس 2002، پریس اخبارات نیوز ایجنسیز و کتب رجسٹریشن آرڈیننس 2002، دی نیوز پیپر ایمپلائز (سروس ایکٹ کی شرائط 1973)، پیمرا ایکٹ 2007، موشن پکچرز آرڈیننس 1979 اور سائبر کرائم ایکٹ کو ایک قانون پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 اور ایک ریگولیٹری اتھارٹی (پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے تحت میڈیا انڈسٹری کو اکٹھا کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں آرڈیننس پیش کیا۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں، صحافتی تنظیموں اور عالمی اداروں کی مخالفت و احتجاج کے باعث یہ آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔

صدر پاکستان عارف علوی نے 18 فروری 2022 کو پیکا آرڈی ننس 2016 میں جھوٹی خبروں کی روک تھام کے تناظر میں کی گئی نئی ترامیم کے ساتھ منظوری دی۔ ترمیم کی تشریح کے تحت حکومتی اداروں یا شخصیات پر تنقید کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔ اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافتی اداروں اور ایسوسی ایشنز کی جانب سے رٹ دائر کی گئی اور درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ صدارتی آرڈیننس آئین پاکستان کی بیش تر دفعات سے متصادم ہے جو اپنے شہریوں کو آزادی رائے اور معلومات لینے و جاننے کا حق دیتی ہیں۔

میڈیا انڈسٹری کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور صحافتی تنظمیوں کی جانب سے 28 فروری کو ملک گیر احتجاج کیا گیا۔ بالآخر 8 اپریل 2022 کو جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس ایکٹ کو آئین پاکستان کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ فیصلے میں ہتک عزت کے جرم، انفرادی ساکھ کی حفاظت، گرفتاری اور قید کے اثرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سیکشن 20 کو ختم کرنے کی ہدایت دی گئی اور وفاقی اداروں کو ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے تناظر میں مناسب قانون سازی کے لئے تجاویز پیش کرنے اور مزید گرفتاریوں سے روک دیا گیا۔

کچھ تؤقف کے بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بذریعہ ٹوئیٹ آگاہ کیا کہ 'براہ کرم نوٹ کریں کہ یہ پٹیشن فوری طور پر واپس لی جاتی ہے، کیونکہ یہ حکومت کی بیان کردہ پالیسی اور آزادی اظہار کے حق میں کھڑے ہونے اور یقینی بنانے کے اصول کے خلاف ہے۔ وزیر اعظم نے اس پٹیشن کے دائر ہونے کا سخت نوٹس لیا ہے۔'

اسی حوالے سے ایف آئی اے اور ریجنل پولیس آفیسر ملتان سے آر ٹی اے کی مدد سے پیکا ایکٹ کے زیر اثر صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی معلومات کی درخواستیں 29 اگست اور 13 ستمبر کو یاد دہانی کروائی گئی، مذکورہ محکموں سے جواب موصول نہ ہونے کے بعد 28 ستمبر کو فیڈرل انفارمیشن کمیشن اسلام آباد اور 14 اکتوبر کو صوبائی انفارمیشن کمشنر پنجاب کو مطلوبہ معلومات کے حصول کے لئے درخواست دی گئی جس پر تاحال جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

7 مئی 2022 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) صحافی سمیع ابراہیم پر سرکاری اہلکاروں پر جھوٹے الزامات لگانے کے الزام میں پیکا کے تحت کیس درج کرتی ہے اور انہیں 13 مئی کو تحقیقات کے لئے اپنے دفتر بلوایا۔ سمیع ابراہیم بتاتے ہیں کہ اکتوبر 2022 میں یہ کیس ختم ہوچکا ہے، ایف آئی اے نے عدالت میں کیس ختم کرنے کے حوالے سے تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسی صورت حال سے نہیں گھبراتے کیونکہ صحافیوں کو حق بات کرنے سے حکومت یا دیگر ادارے روکنے کی کوشش کرتے ہی ہیں۔ جبکہ صحافی عوامی فلاح و ملکی بہتری کے لئے ہی ایسے معاملات کی نشاندہی کرتے ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنے کام کے حوالے سے پرعزم ہیں۔

خانیوال پریس کلب کے صدر فرحان قیوم بتاتے ہیں کہ پیکا آرڈی ننس کو حتمی شکل دیتے وقت صحافتی تنظیموں اور صحافی برادری کے حقیقی رہنماؤں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ فرحان قیوم سمجھتے ہیں کہ پیکا ایکٹ ضروری ترامیم کے ساتھ نافذ کیا جانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے لئے ملک میں تاحال کوئی مؤثر ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں ہے۔ لیکن اس عمل میں صحافی برادری کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے۔

ہفت روزہ شب و روز کے ایڈیٹر امتیاز علی اسد کہتے ہیں کہ صحافیوں کو ہمیشہ سے پابندیوں کا سامنا رہا ہے لیکن جب سے پروفیشنل صحافت کی جگہ کمرشل انڈسٹری نے لی ہے تب سے ان پابندیوں اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ صحافی کا بنیادی کردار عوام کو آگاہ کرنا اور ان کی تربیت کا ہے نہ کہ احتساب کرنے کا۔ جب یہ فرق مٹ جائے تو صحافی صحافت نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ فریق بن جاتا ہے جس کے باعث اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیکا ایکٹ کے حوالے سے ان کا مؤقف ہے کہ اس ایکٹ کو مزید بہتری کے بعد نافذ ہونا چاہئیے کیونکہ سوشل میڈیا کے احتساب پر مبنی کوئی بہتر قانون موجود نہیں ہے۔

فری لانس صحافی ربیعہ نواز بتاتی ہیں کہ یہ حکومتی پابندیاں آئین کی خلاف ورزی اور محض لکھنے کی بندش تک محدود نہیں رہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے بلوچستان میں صحافیوں کی آواز دبانے کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے جو آج شہر اقتدار تک آن پہنچا ہے۔ اس میں دھمکی آمیز کالز، تشدد اور قتل جیسے سنگین عمل بھی شامل ہیں جس کا بنیادی مقصد عوام کو بے خبر رکھتے ہوئے سب کچھ اپنے مطابق کرنے دینا مقصود ہے چاہے اس ضمن میں انسانی حقوق جتنے بھی پامال ہو جائیں۔

کم و بیش سبھی حکومتی ادوار میں صحافت کے حقیقیی علم برداروں کی مشاورت کے بغیر قوانین تشکیل دیے گئے جن پر عمل دآرمد کے باعث تعمیری تنقید معاشرے سے ختم ہو رہی ہے اور مطلق العنانیت پر مبنی حکومتی نظام کو ترویج مل رہی ہے اور معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔ ہونا یہ چاہئیے کہ ہر حکومت میڈیا کو ترقیاتی صحافت پر مبنی کام کرنے کی مکمل آزادی دے جس سے معاشرے کے ہر شہری میں سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ کی ترویج ہو سکے اور میڈیا اپنا تعمیری کردار آزادی سے ادا کرسکے۔
مزیدخبریں