نجی نیوز چینل کے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ایک آقا اور غلام کے رہے ہیں۔ ایسا بیان دینے سے پہلے آپ کو ملکی تاریخ کا بھی علم ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ایک غلام کی مانند ہوتے تو آج پاکستان ایک جوہری ملک نہ ہوتا۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو جوہری ملک بننے سے روکنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟ اس وقت میں سفیر تھی اور بار بار یہی کہا جارہا تھا کہ آپ نیوکلیئر پروگرام چھوڑ دیں اس کو فریز کر دیں۔ آپ مزائل مت بنائیں۔ ہمیں ہر طرح سے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے کہا گیا لیکن پاکستان کا یہی موقف رہا کہ ہماری قومی پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اورہم اپنی قومی سلامتی کا خود فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تسلسل اور مستقل مزاجی کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بہت اہم جزو ہوتے ہیں، ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت یکساں طور پر ایک پالیسی پر کاربند رہی اور انہوں نے پاکستان کے اہم اسٹریٹجک مفادات کی حفاظت کی۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے "سرد جنگ" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو تاریخ کا علم ہونا چاہیے اور شاید ہو بھی کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نے پاکستان کو چین سے تعلقات استوار کرنے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات بنانے کی صورت میں پاک -امریکہ تعلقات بری طرح سے متاثر ہوں گے۔پاکستان نے اس وقت بھی ایک نہیں سنی اور اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں ایک طویل جنگ لڑی اور وہ جیت نہیں پایا- اس وقت بھی امریکہ متعدد بار پاکستان پر 'ڈبل گیم' کا الزام لگاتا رہا کیونکہ ہم نے طالبان کے ساتھ اپنی رابطہ کاری بحال رکھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن امریکہ ہمارے خطے سے چلا جائے گا لیکن ہم اپنے خطے سے کہیں نہیں جا سکتے۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاو آتا رہا ہے اور ایسا اس لئے ہوتا رہا کیونکہ ہم اپنی پالیسی پر کاربند تھے امریکہ کی پالیسی پر نہیں۔ امریکہ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ ان میں چین کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات اہم ہیں۔ الزامات کے ذریعے ماحول کو خراب کرنے کی بجائے ہمیں اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا چاہیے۔
سابق پاکستانی سفیر نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے کسی قسم کی سازش نہ ہونے کا اعتراف کرنا ایک خوش آئند بات ہے، ایک سنجیدہ سیاستدان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جو بھی پالیسی اپنائے اس میں تسلسل ہونا چاہیے، خارجہ امور میں بھی تسلسل بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اگر آپ ابھی کچھ کہہ رہے ہوں اور چند دن کے بعد کچھ اور کہہ رہے ہوں تو اس سے ساکھ خراب ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ عمران خان اب سے خارجہ امور کے ساتھ ساتھ داخلی امور کے بارے میں بھی اپنی پالیسیوں کے حوالے سے تسلسل رکھیں گے۔