گْوادر کے پدی زِر کے ساحل پر ناخدا مسکرا کر کہنے لگے کہ کیا انٹرنٹ بند کرنے سے ملک کے قرضے اتر گئے؟ میں یہ سن کر ہنس پڑا کہ واقعی 6 دن انٹرنٹ بند کرنے سے کیا فرق پڑا ہوگا۔ 11 نومبر سے 17 نومبر تک سی پیک کے شہر گْوادر سمیت بلوچستان کے جن چند شہروں میں موبائل انٹرنٹ دستیاب تھا، وہاں اسے بند کر دیا گیا تھا۔
منصوبہ ساز اداروں کو سات دہائیاں بعد بھی اپنے پرانے اور گزرے آباؤ اجداد کی طرح ہر مسئلے کا حل صرف بند کرنے میں ہی نظر آتا ہے۔ بلوچستان تو ویسے بھی ایسے روایتی رواجوں کی تجربہ گاہ ہے۔ پہلے پہل جو لوگ آواز اٹھاتے تھے انہیں اٹھا کر بند کر دیا گیا، اور ایسے بند کیا گیا کہ کئیوں کا تو پندرہ پندرہ سال بعد بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اور انسانوں کو اٹھا کر بند کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے مگر نتیجہ؟
شاید منصوبہ سازوں میں سے کسی جینیئس کے ذہن میں آیا ہوگا کہ بلوچستان کے مسائل کی جڑ میڈیا ہے اسی لیے بلوچستان کو مین سٹریم میڈیا سے دور رکھا گیا اور آج تک بلوچستان ایک انفارمیشن بلیک ہول ہے جس کے معدنی وسائل تو کئی فٹ زیر زمین دریافت کیے گئے ہیں مگر اوپر بسنے والے لوگ اور ان کے حالات دریافت نہیں کیے جا سکے۔ مین سٹریم میڈیا نے اسی دوری کا یہ فائدہ اٹھایا کہ ستر سالوں میں اپنے عوام کو بلوچستان سے متعلق ایک خود ساختہ 'بلوچی سردار مسائل کی جڑ' والا بیانیہ بیچا۔ اب جب بلوچستان سے اٹھنے والی تحریکیں بلوچ خواتین کی سربراہی میں اسلام آباد تک پہنچی تو مین سٹریم میڈیا نے اپنے بلوچ سرداروں والے بیانیے کا جنازہ نکلتے دیکھا تو 'کیا آپ فلاں فلاں کی مذمت کرتے ہیں؟' کہنا شروع کیا تاکہ بلوچستان کے اصل حقائق کو چھپایا جا سکے اور بلوچستان کو انفارمیشن بلیک ہول ہی رکھا جائے۔
لوگوں کو اٹھا کر بند کرنے کے منصوبے پر عمل ہو ہی رہا تھا کہ شاید پھر کسی منصوبہ ساز کو خیال آیا کہ نہیں بلوچستان کے مسائل کی اصل وجہ تو کتابیں اور سیاسی و ادبی لٹریچر ہے اسی لیے 2013-14 میں کتابوں کی دکانوں کو سیل کر دیا گیا، لائبریریوں پر چھاپے مارے گئے۔ کتابوں کے لیے بلوچستان کو ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا مگر جب ممکنہ نتائج نہ مل سکے تو خود بعد میں لٹریری فیسٹیول کا انعقاد شروع کیا گیا۔ لاہور و کراچی سے میڈیا پرسنز، ادیب، دانشور اور فنکاروں کو بلوچستان مدعو کیا گیا۔ بلوچستان کے مسائل پر اوپن ڈسکشن کے سیشن رکھے گئے، کروڑوں روپے ان پروگراموں پر خرچ کیے گئے مگر اس دوران بھی انسانی حقوق پر منعقدہ سیمینار کے لیے کوئٹہ پریس کلب کو بند کر دیا گیا۔
پھر منصوبہ ساز بااختیار و طاقتور عقل مندوں کو خیال آیا ہے کہ یہ تو ڈیجیٹل دور ہے۔ انٹرنیٹ و ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے کیوں ناں انٹرنیٹ کے ذریعے بلوچستان کا مثبت امیج دکھا کر مسائل ہی کو بھول جائیں، اس سلسلے میں بلوچستان کے جن چند شہروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب تھی وہاں حکومت بلوچستان کے خرچے پر ماہانہ کروڑوں روپے لگا کر سوشل میڈیا پر مختلف اکاؤنٹس چلائے جا رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس پر منصوبہ سازوں کی تعریفیں، گْوادری حلوے کی مٹھاس، بلوچی سجی کی لذت اور کُنڈملیر کا حسن دکھا کر مثبت امیج پر خرچہ جاری تھا کہ پھر شاید کسی اور نئے منصوبہ ساز کو لگا کہ نہیں بلوچستان کے مسئلے کی اصل اور بنیادی وجہ انٹرنیٹ ہے تو اب ہر چند ماہ بعد کئی ہفتوں یا دنوں تک انٹرنٹ ہی بند کر دیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے جن اکثریتی علاقوں میں انٹرنیٹ پہلے سے بند ہے جیسا کہ آواران و پَنجگُور وغیرہ، وہاں کے حالات سے منصوبہ ساز اس قدر متاثر تھے کہ اب سی پیک کا شہر بھی انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے لیے آواران بنایا جا رہا ہے۔ اب ہر مسئلے کا حل 'بند کر دو' میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ گْوادر میں بلوچ راجی مُچی (نیشنل گیدرنگ) ہو رہا ہے، تو سڑکیں بند کر دو، سیاسی اجتماع کیا جا رہا ہے تو شہر کا پانی کر دو، موبائل نیٹ ورک بند کر دو، انٹرنیٹ بند کر دو، وی آئی پی گزر رہے ہیں، تمام راستے بند کر دو، لوگ سوچ رہے ہیں یا بول رہے ہیں تو انہیں اٹھا کر بند کر دو۔ اب 'بند کر دو' منصوبہ سازوں کے لیے آخری اور بہترین حل بن گیا ہے۔ بقول ناخدا، ملکی قرضے اتارنے کے لیے بھی انٹرنیٹ بند کر دو۔