پاکستان اس وقت ایک تباہ کن معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ افراط زر مڈل کلاس طبقے کیلئے بھی پریشانی کا باعث بن چکی ہے۔ جبکہ روپے کی قدر میں بتدریج کمی سیونگ سرٹیفیکیٹس کی قدر میں بھی روزانہ کی بنیاد پر کمی کا باعث بن رہی ہے۔ غریب پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہ بیچارے محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی بقا کی تگ و دو میں برسر پیکار ہیں۔ عوام اب مزید پس پشت لڑائیوں کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں رہی ہے۔ ٹھیک اسی ہفتے جب عاطف میاں اور دیگر ارکان نے استفے پیش کیے، عمران خان نے بیرون ملک بسنے والے تارکین وطن سے ڈیم کی تعمیر کیلئے چندے کی درخواست کی تھی۔
ہمارے نئے جینیئس کے مطابق اگر باہر بسنے والا ہر پاکستانی ایک ہزار ڈالرز فی کس بھیجے تو ڈیم باآسانی تعمیر ہو سکتا ہے۔ یعنی مسئلہ فوری حل۔ اوور سیز پاکستانی (تارکین وطن) جو اکثر کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی رکھتے ہیں ایک نئی سرکاری کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں، جنہیں پرویز مشرف نے بھارتی معاشی ماڈل (نان ریزیڈینٹ انڈینز) سے متاثر ہو کر توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ یہ افراد نہ صرف ملک کی معیثت کو استحکام بخشنے میں حصہ ڈالتے ہیں بلکہ جن ممالک میں بستے ہیں وہاں اپنے آبائی ملک کیلئے لابی کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ عاطف میاں بھی ایک اوور سیز پاکستانی تھا لیکن احمدی ہونے کے باعث اسے اس ڈرپوک اور کنفیوزڈ حکومت کی فیس سیونگ کیلئے ایک منفرد نوعیت کی قربانی دینا پڑی۔
احمدی پاکستان کے اچھوت ہیں
احمدیوں سے نفرت کا سلسلہ سامراجی زیر تسلط پنجاب سے جا ملتا ہے جب پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ محمد اقبال نے احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیا تو احمدیوں سے نفرت کا یہ سلسلہ پورے وطن میں پھیل گیا۔ میں نے اپنی کتاب (At Freedom's Limit: Islam and the Postcolonial Predicament) میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ کیسے نفرت کا یہ سلسلہ پھیلتے پھیلتے ریاست کی نظریاتی اساس میں شامل ہو گیا۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پارلیمان کے ذریعے ایک آئینی ترمیم شامل کر کے احمدیوں کو اچھوت شہری بنا دیا گیا۔ ضیاالحق کے دور میں اسے پاکستان پینل کوڈ کے باب 15 میں ایک دفعہ کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ یہ دفعہ مذہبی دل آزاری اور اشتعال پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ دراصل انڈین پینل کوڈ 1860 کا محض نام بدلا ہوا سامراجی قانون ہے۔ مذہب سے متعلق قانون کا یہ باب وکٹورین برطانیہ کا قانون ہے اور یہ ہم جنس پرستی کے اس قانون سے ملتا جلتا ہے جسے حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ احمدیوں کی قانونی حیثیت سے ملتا جلتا عصر حاضر کا قانون امریکی آئین کی دفعہ تین کا آرٹیکل پانچ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سیاہ فام افراد کے خلاف امریکہ میں نسلی بنیادوں پر نفرت کی مانند پاکستان میں بھی احمدیوں کا استحصال ملک میں دیگر مذہبی اقلیتوں کے استحصال کا باعث بنا ہے۔
عمران خان تضادات پر مشتمل بنیاد پرست شخصیت ہیں
عمران خان کا عاطف میاں کے معاملے پر جھک جانے کا فیصلہ ہرگز بھی خلاف توقع نہیں تھا۔ عمران خان نہ تو کوئی سنجیدہ مفکر ہے اور نہ ہی زیادہ سوچتا ہے۔ عمران نے اپنے اس ماضی کو جس میں وہ ایک پلے بوائے تھا دفن کرنے کیلئے مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کے سامنے اس مسلمان کے روپ میں پیش کیا ہے جو کسی زمانے میں مغربی اقدار سے متاثر تھا لیکن بالآخر اسے مذہب کی کشش واپس کھینچ لائی۔ اس لئے عمران خان ایک تضاد سے بھرا بنیاد پرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمران نے قانونی ترمیم کی بھی حمایت کی تھی۔ اس کی بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں سے چندہ مانگنے کی اپیل بھی انہی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کے بہت سے چاہنے والے انہیں ان کے لندن والے پلے بوائے والے امیج اور ماضی کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔
عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مجھے اس حوالے سے فیس بک پر جس پوسٹ نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ جین آسٹن سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے تھی۔ اس سوسائٹی کے ممبران نے عمران خان کے ماضی کی ایک تصویر لگائی جس میں انہوں نے سر پر ایک اونچا ہیٹ (bowler’s hat) پہن رکھا ہے اور کنگ ایڈورڈ کی مانند ایک قیمتی سوٹ میں ملبوس نظر آ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ پاکستان کو ساتویں صدی کے مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں اس لئے فی الحال اس تصویر والے حلیے میں ان کا دوبارہ آ پانا مدینہ بنانے کے تصور سے یو ٹرن لینے تک ناممکن ہے۔ لیکن اس بات سے قطع نظر جو بات حیران کن اور اہمیت کی حامل ہے وہ خان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمتی طاقت کی کمی ہے۔