ایف آئی اے حکام کے مطابق جامعہ بلوچستان، کوئٹہ کے سیکیورٹی انچارج سمیت درجنوں اہلکاروں سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور تحقیقات میں ہراساں کرنے سے متعلق شواہد بھی ملے ہیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کی سائبر کرائم ٹیم نے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر واقع یونیورسٹی آف بلوچستان کے سیکیورٹی برانچ اور ہاسٹل سمیت مختلف شعبوں پر چھاپے بھی مارے ہیں۔
ایف آئی اے آفیسر کے مطابق چھاپے کے دوران ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ طالبات کو واقعی ہراساں کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو یونیورسٹی میں واش روم سمیت مختلف مقامات سے خفیہ کیمرے ملے ہیں جو بجلی کے سوئچ بورڈ یا اس جیسے دیگر خفیہ مقامات پر نصب کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے آفیسر کے بقول یونیورسٹی کے سیکیورٹی اور سرویلنس برانچ کے انچارج، آفیسروں اور اہلکاروں سمیت درجنوں افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے اور ان میں سے بعض اہلکاروں کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز قبضے میں لے کر ان کا فارنزک کرایا جا رہا ہے۔ تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
ایف آئی اے آفیسر کے مطابق تحقیقاتی ٹیم جلد تحقیقات مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ ہائیکورٹ نے اس مہینے کے آخری ہفتے تک اس معاملے کی رپورٹ مانگی ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے ترجمان امیر حمزہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے گذشتہ روز یونیورسٹی کا دورہ کیا اور جن اہلکاروں کے خلاف شکایات تھیں ان کے بیانات قلمبند کیے۔ ان اہلکاروں نے اپنے موبائل فون اور دیگر ڈیوائسز بھی ایف آئی اے کے حوالے کر دی ہیں اور وہ تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کا کہنا ہے کہ صرف طلبہ و طالبات ہی نہیں خواتین و مرد اساتذہ کو بھی ہراساں اور بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے اساتذہ کی تنظیم اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ فرید خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں یہ سلسلہ اب سے نہیں بلکہ دو تین سالوں سے چل رہا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں گورنر بلوچستان اور وائس چانسلر تک اپنے تحفظات پہنچائے مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔
فرید اچکزئی کے مطابق اب جب ایک وفاقی تفتیشی ادارے نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے ہم اسے خوش آئند کہتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صوبائی صدر اور یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایم فل کے طالب علم گورگین بلوچ نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض اہم عہدیدار اور اساتذہ طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ ہم سے کئی متاثرہ طالبات نے رابطہ کیا اور بتایا کہ طالبات کو خفیہ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز وٹس ایپ کر کے کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس آئیں ورنہ یہ ویڈیوز عام کر دی جائیں گی یا پھر آپ کے والدین کو بھیجی جائیں گی۔
تاہم یونیورسٹی آف بلوچستان کے ترجمان امیر حمزہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر کے دفتر یا انتظامیہ کو اس سے قبل کسی طالب علم یا استاد کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوئی شکایت نہیں ملی ۔ بعض سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے اپنے مفادات ہیں وہ اس معاملے کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ہم ایف آئی اے سے مکمل تعاون کر رہے ہیں مگر ان کی جانب سے اب تک ہم سے کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔