پسِ منظر
غالب 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف 1799 میں پیدا ہوئے۔ 1802 میں غالب کے والد مرزا عبداللہ بیگ کا انتقال ہو گیا۔ غالب کے سارے خاندان کے سرپرست ان کے چچا مرزا نصراللہ بیگ قرار پائے۔ نصراللہ بیگ مرہٹوں کی طرف سے آگرے کے قلعہ کے قلع دار تھے۔ جب Lord Lake نے آگرے کی طرف پیش قدمی کی تو نصراللہ بیگ نے ہتھیار ڈال دیے، اور آگرہ Lord Lakeکے حوالے کر دیا۔ اس کے بدلے میں Lord Lake نے نصراللہ بیگ کو آگرے کا قلع دار مقرر کر دیا۔ 21 ستمبر 1805 کو Lord Lake نے سونک اور سونسا نام کے دو پرگنے نصراللہ بیگ کو تاحِینِ حَیات مرحمت کیے۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد 1806 میں نصراللہ بیگ ہاتھی سےگر پڑے، اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی اہلیہ اور بچے کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔ انگریز سرکار نے سونک اور سونسا کی جاگیریں واپس لے لیں، اور پسماند گان کے لئے پنشن مقرر کر دی۔ اس کام کے لئے نواب احمد بخش (جو نصراللہ بیگ کے سالے تھے) کو چنا گیا۔ اس سلسلہ میں 4 مئی 1806 کو حکم صادر ہوا کہ نواب احمد بخش کے 25 ہزار روپے سالانہ، جو وہ اپنی جاگیر کے لئے حکومت کو دیتے ہیں، معاف کیے جاتے ہیں بشرطیہ کہ وہ 15 ہزار روپے سالانہ 50 سواروں کے دستے پر خرچ کریں گے، اور دس ہزار روپے سالانہ وہ نصراللہ بیگ کے پسماندگان کو بطور وظیفہ ادا کریں گے۔ 8 جون 1806 کو نواب احمد بخش نے Lord Lake کی دستخط شدہ دستاویز دکھائی، جس کی رو سے پسماندگان کو 10 ہزار روپے سالانہ نہیں بلکہ پانچ ہزار روپے سالانہ ملنے تھے!
وظیفہ کی تقسیم کچھ اس طرح تھی:
1ـ خواجہ حاجی دو ہزار روپے سالانہ
2ـ نصراللہ بیگ کی والدہ اور تین بہنیں ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ
3ـ غالب اور مرزا یوسف ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ۔ غالب اس میں سے چھ سو روپے سالانہ اپنے چھوٹے بھائی کو دیتے تھے۔ اور غالب کو اپنے حصے کے 900 روپوں میں سے 400 روپے سالانہ اپنی بیوی کو دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
غالب کا مقدمہ
جب غالب نے ہوش سنبھالا تو ان کو اِس بے ایمانی کا علم ہوا۔ ان کے تین اعتراضات تھے:
1ـ وظیفہ کی رقم 5 ہزار سالانہ نہیں بلکہ 10 ہزار سالانہ تھی۔
2ـ خواجہ حاجی سے ان کی برائے نام رشتہ داری تھی، اس لئے ان کو دی جانے والی رقم ان کو (غالب کو) ملنی چاہیے تھی۔
3ـ بعد میں غالب نے یہ موقف بھی اپنایا تھا کہ Lord Lake والی دستاویز نقلی ہے۔
غالب نے پہلی دفعہ جب یہ معاملہ نواب احمد بخش کے سامنے اٹھایا تو بقول غالب، انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اور کہا کہ خواجہ حاجی کے مرنے کے بعد یہ دو ہزار روپے سالانہ تم دونوں بھائیوں کو ہی ملیں گے۔ 1810 میں 13 سال کی عمر میں غالب کی شادی نواب احمد بخش کی 11 سالہ بھتیجی امراؤ بیگم سے ہو گئی۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں شعر گوئی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1812 میں غالب نے آگرے سے نقل مکانی کر کے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ 1823 میں خواجہ حاجی کا انتقال ہو گیا، مگر وظیفہ کے وہ دو ہزار روپے بجائے غالب کو ملنے کے، خواجہ حاجی کے دونوں بیٹوں (خواجہ شمس الدین اور خواجہ بدرالدین) کو ملنے لگے۔ غالب نے جب یہ بے انصافی کا معاملہ نواب احمد بخش کے سامنے اٹھایا تو انھوں نے پس و پیش سے کام لیا، اور کچھ دن اور انتظار کرنے کو کہا۔
ابتدائی کوششیں
غالب نے انگریزی سرکار کے دہلی میں تعنیات Resident سے ملنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 1825 تک Sir David Ochterlony (جو اختر لونی کے نام سے مشہور تھے) دہلی میں ریذیڈنٹ تھے۔ اس کے بعد Sir Charles Theophilus Metcalfe دہلی کے ریذیڈنٹ مقرر ہوئے۔ یہ ریذیڈنٹ حضرات اکثر دوروں پردوسرے شہر بھی جاتے رہتے تھے۔ غالب نے ملاقات کی کوششوں میں کئی چکر کانپور، فیروزپور جھرکا اور بھرت پور کے لگائے مگر ان کی ملاقات ریذیڈنٹ نہ ہو سکی، یا نواب احمد بخش نے ہونے نہ دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ بجائے دوسرے شہروں میں جانے کے غالب نے ریذیڈنٹ سے دہلی میں ملنے کے کوشش کیوں نہیں کی؟ انگریزی سرکار کے حکم کے مطابق دہلی میں کسی دیوانی مقدمے میں ملوّث فرد کو صرف دن کے اجالے میں، اور صرف گھر کے باہر سے گرفتار کیا جا سکتا تھا! غالب کے خلاف کئی قرض خواہوں نے مقدمے دائر کیے ہوئے تھے اور دن میں باہر نکلنے میں گرفتاری کا خطرہ تھا۔ اس لئے غالب صرف رات کو ہی گھر سے باہر نکلتے تھے، اور رات کو ریذیڈنٹ کا دفتر بند ہوتا تھا۔ اس وقت تک غالب ددیہال اور ننیہال کی ساری موروثی جائیداد بیچ کر کھا چکے تھے اور اوپر سے 20 ہزار روپوں کے مقروض بھی تھے۔ غالب نواب احمد بخش کی اعانت سے مایوس ہو گئے اور انہوں نے مٹکاف سے بلا واسطہ ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو خبر مِلی کہ Governor General William Amherst کلکتہ سے دہلی براستہ کانپور آ رہے ہیں، اور مٹکاف ان کا استقبال کرنے خود کانپور جا رہے ہیں۔ غالب نے سوچا کہ وہ کانپور جائیں گے، وہاں سے قافلے کے ساتھ دہلی آئیں گے۔ اس طرح یا تو ان کو کانپور میں، یا دہلی کے راستے میں کہیں نہ کہیں مٹکاف سے براہِ راست بات کرنے کا موقع مل ہی جائے گا۔ غالب چھپتے چھپاتے فیروزپور جھرکا سے دہلی پہونچے۔ کہیں نہ کہیں سے سفر خرچ کے لئے قرض کا انتظام کیا، اور کانپور کو نکل لیے۔
کلکتہ کی طرف روانگی
اکتوبر 1826 کو غالب کانپور پہونچے اور پہنچتے ہی بیمار پڑ گئے۔ ان کی عمر اس وقت صرف 29 سال تھی، مگر ان کو کئی پوشیدہ اور غیر پوشیدہ بیماریاں تھیں۔ کانپور میں ان کو کوئی مناسب طبیب نہیں ملا، اس لئے وہ دریائے گنگا پار کر کے زمینی راستے سے لکھنٔو چلے گئے۔ اس کے علاوہ امام بخش ناسؔخ بھی ایک عرصہ سے انہیں لکھنٔو بلا رہے تھے۔ مٹکاف سے ملنے کا ارادہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ غالباً، اس وقت ان کے ذہن میں کلکتہ جانے، اور اپنا مقدمہ گورنر جنرل کے سامنے پیش کرنے کا خیال پیدا ہوا ہوگا۔ اکتوبر 1819 سے اودھ کی حکومت، دہلی کی سلطنت سے آزاد ہو چکی تھی، اور ان کی اپنی بادشاہت قائم ہو چکی تھی۔ غالب کی آمد کے وقت غازی الدین حیدر، اودھ کے بادشاہ تھے، اور معتمد الدولہ آغا میر ان کے وزیرِ اعظم۔ آغا میر، شعرا کی سرپرستی کے لئے مشہور تھے۔ انہوں نے غالب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ غالب کو خلعت ملنے، اور اس کے پارچوں کے شمار کی مناسبت سے رقم ملنے کی امید پیدا ہوئی۔ ناسؔخ کے مشورے پر انہوں نے آغا میر کی شان میں 110 اشعار کا ایک قصیدہ لکھا، مگر اس کے ساتھ ہی غالب نے آغا میر سے ملاقات کے لئے تین شرا ئط بھی رکھیں: پہلی شرط یہ کہ معتمد الدولہ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے، دوسری شرط یہ کہ وہ ان سے معانقہ کریں گے (یعنی بغلگیر ہوں گے) اور تیسری یہ کہ غالب کو نذر پیش کرنے سے معافی دی جائے گی (کیونکہ ان کے پاس دینے کو کچھ تھا ہی نہیں)۔ آغا میر نے غالب کی شرائط کو مسترد کر دیا۔ غالب ناراض ہو گئے اور انہوں نے آغا میر سے ملنے ہی سے ان کار کر دیا۔ اس طرح غالب اپنی انا سے مجبور ہو کر، ہاتھ آتی ہوئی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آغا میر نے غالب کو شاہِ اودھ سے بھی ملنے نہیں دیا۔ قصیدہ بھی پیش نہیں ہو سکا۔ یہی قصیدہ، کچھ عرصہ بعد معمولی رد و بدل کے بعد غالب نے شاہِ اودھ نصیر الدین حیدر (جو غازی الدین حیدر کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوئے تھے) کے نام کر دیا۔ غالب نے اپنے دوست رائے چھج مل کے نام ایک خط میں آغا میر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ لکھنٔو میں انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ غالب تقریباً نو مہینے لکھنٔومیں رہے، مگر ان کی بیماری میں زیادہ افاقہ نہیں ہوا۔ 21 جون 1827 کو وہ لکھنٔوسے کلکتہ کی طرف روانہ ہوئے۔
لکھنٔو سے باندہ
یکّے کے ذریعہ تیسرے یا چوتھے دن کانپور پہنچے۔ وہاں سے فتح پور، ہسوہ کے راستے، جون کےآخر یا جولائی 1827 کے شروع میں باندہ پہنچے۔ باندے کے نواب ذوالفقار علی بہادرغالب کے شاگرد اور دور کے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے غالب کو اپنے مہمان خانے (جو بارہ دری کے نام سے اب بھی موجود ہے) میں ٹھہرایا، اور ان کا علاج حکیم کرامت حسین سے کروایا۔ ان کو علاج سے کافی افاقہ ہوا۔ موقع مناسب دیکھ کر غالب نے نواب صاحب سے 2000 روپے قرض مانگے۔ بقول غالب، انہوں نے براہِ راست تو رقم نہ دی، شاید اس لئے کہ میں واپس نہ کروں، لیکن مہاجن سیٹھ اَمی کرن سے 2000 روپے قرض دلوا دیے۔ باندے میں غالب کے نواب محمد علی خاں سے بہت گہرے دوستانہ مراسم ہو گئے۔ یہ صاحب باندے کے صدر امین (سول جج) تھے۔ انہوں نے ایک تعارفی خط کلکتے کے ایک صاحبِ اقتدار بزرگ نواب اکبر علی خاں کے نام دیا تھا۔ باندے میں غالب نے صرف اردو میں طبع آزمائی کی۔ تقریباً چھ مہینوں کے بعد صحتیاب ہو کر، اور جیب میں دو ہزار روپے لے کرغالب نے باندے کو خیر باد کہا۔
باندہ سے بنارس براستہ الہ آباد
غالب لڑھیا (بیل گاڑی) کے ذریعہ باندے سے مودھا، اور مودھے سے چلّہ تارا پہونچے۔ راستہ میں مودھے کے پاس سے انہوں نے ایک گھوڑا خریدا۔ دریائے جمنا کے گھاٹ سے کشتی کرائے پر لے کر بمع گھوڑا 27 نومبر 1827 کو الہ آباد پہنچے۔ غالب یہاں کئی ہفتے رکنا چاہتے تھے، لیکن ایسا کچھ ہوا کہ چوبیس گھنٹوں سے زیادہ قیام نہیں کیا۔ خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اُسی شام ایک ادبی محفل منعقد ہوئی تھی، اور اس میں مولوی غلام امام شہؔید شریک ہوئے تھے۔ شہؔید، مرزا محمد حسن قتؔیل کے شاگرد تھے، اور غالب کو قتؔیل سے شدید نفرت تھی۔ ممکنہ طور پر غالب اور شہؔید میں تلخ کلامی ہو گئی ہو، یا غالب کے ساتھ کسی کا رویہ غیر شائستہ اور غیر مہذب رہا ہو۔ بہرحال، غالب کو اس شہر میں اپنی مطلوبہ دوائیں نہ ملیں، اور یہاں کے لوگ ان کو غیر شائستہ اور غیر مہذب لگے۔ اپنے خطوط میں انہوں نے شہر کو ویرانہ، اور شہریوں کو آدابِ محفل سے ناواقف کہا۔ دوسرے روز بیل گاڑی کرائے پر لے کر گنگا کے گھاٹ پر پہونچ کر بنارس جانے والی کشتی پر بمع گھوڑا سوار ہوئے۔ بنارس ان کو بہت پسند آیا۔ انہیں اچانک بیماری سے بھی نجات مل گئی۔ انہوں نے بنارس کی تعریف میں فارسی میں ایک سو آٹھ اشعار کی مثنوی ’چراغِ دَیر‘ لکھی۔ انہوں نے بنارس کو اِرم آباد کہا۔ ان کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان کے ذہن میں مستقل طور پر بنارس میں رہ جانے کا خیال بھی آیا تھا۔ بنارس میں کوئی بھی ان کا جاننے والا نہیں تھا۔ غالب بنارس میں گمنام زندگی گزار رہے ہوں، یہ ان کے مزاج کے قطعاً خلاف تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنارس میں کوئی ایسا ’غارت گرِ ہوش‘ تھا جس سے غالب کو عشق ہو گیا تھا۔ غالب تقریباً چار ہفتے بنارس میں رہے۔
الہ آباد سے کلکتہ
غالب گھوڑے پرسوار ہو کر، سڑک کے راستے پٹنہ اور مرشد آباد سے ہوتے ہوئے، 21 فروری 1828 کو کلکتہ پہنچ گئے۔ مرشدآباد میں غالب کو نواب احمد بخش کے انتقال، اور ان کے بیٹے شمس الدین خان کی جانشینی کی خبر مِلی۔ دہلی سے کلکتہ کا یہ ایک ہزار میل کا سفر 17 مہینوں میں طے ہوا۔ اس وقت غالب کی عمر 31 سال تھی۔ دو ہزار روپے جو وہ باندہ سے لے کر چلے تھے، اس میں سے صرف 600 روپے باقی بچے تھے۔ غالب نے راستہ میں ہر جگہ سے اپنے دوستوں سے تعارفی اور سفارشی خطوط لیے، جن کو انہوں نے آگے استعمال کرنے کے لئے حفاظت سے رکھ لیے۔
کلکتہ
غالب کو چھ روپے ماہوار پر اچھا مکان مل گیا، جس میں گھوڑے کے رکھنے کا بھی انتظام تھا۔
ابتدائی ناکامی
مرزا محمد حسن قتؔیل (1759 ـ 1818) کا شمار ہندوستان میں اپنے عہد کے مقبول اور ممتاز فارسی دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف فارسی زبان کے شاعر تھے بلکہ انہوں نے فارسی قواعد (Grammar)کی بھی دو کتابیں ’چہار شربت‘ اور ’نہرالفصاحت‘ لکھیں۔ وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں رہے۔ لیکن وہ کلکتہ میں بھی بہت مقبول تھے۔ غالب کے کلکتہ پہونچنے سے دس سال پہلے قتؔیل کا انتقال ہو چکا تھا، مگر اس وقت بھی کلکتہ میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ غالب کے مداح اور چاہنے والے بھی کلکتہ میں موجود تھے، مگر ان کی تعداد کم تھی۔ گرچہ کلکتہ آنے سے پہلے غالب نے قتؔیل کے خلاف کچھ نہیں لکھا، مگر حقیقتاً وہ ان سے شدید نفرت کرتے تھے۔ غالب، سوائے امیر خسؔرو، مرزا عبدالقادر بیدؔل اور اپنے آپ کے، کسی اور کو فارسی داں نہیں مانتے تھے۔ غالب، باندے کے نواب محمد علی خاں کا تعارفی خط لے کر کشتی کے ذریعہ نواب اکبر علی خاں کے گھر پہونچے، جو ہُگلی میں رہتے تھے۔ وجہ ملاقات یہ تھی کہ نواب صاحب کے ہُگلی کے کلکٹر سے اچھے مراسم تھے، جو مقدمہ کے سلسلہ میں کام آ سکتے تھے۔ مگر نواب صاحب نے بتایا کہ ان کے تعلقات کلکٹر سے خراب ہو گئے ہیں، اور وہ اب کچھ نہیں کر سکتے۔ نواب محمد علی خاں کے بھائی سراج الدین خاں کلکتہ میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز تھے، مگر ان کا غالب کے کلکتہ آنے سے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ منشی عاشق علی خاں کلکتہ میں اودھ کی حکومت کے سفیر تھے، اور اس حیثیت میں ان کے انگریز سرکاری افسران سے تعلقات تھے۔ باندے کے نواب محمد علی خاں نے خط کے ذریعے ان کا تعارف غالب سے کرا دیا تھا، مگر غالب کے کلکتے آنے کے فوراً بعد ان کو لکھنٔو واپس بلا لیا گیا۔ ناکامی ہی ناکامی۔
الزامات
مرزا افضل بیگ، حاجی جان کے بیٹوں (خواجہ شمس الدین اور خواجہ بدر الدین) کے ماموں تھے، اس وجہ سے وہ خواجہ حاجی جان کے بیٹوں کے وکیل تھے، اور غالب کے زبردست مخالف بھی۔ دوسری طرف مرزا افضل بیگ، غالب کے بہنوئی کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ مغل بادشاہ اکبر ثانی کے وکیل ہونے کی حیثیت سے، وہ سرکارِانگلشیہ کی Presidency (کلکتہ) میں 1827 سے موجود تھے۔ اس وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ان کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ انہوں نے کلکتے میں برطانوی افسروں کی نظروں میں غالب کو ذلیل کرنے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ان سب کے باوجود بھی غالب سے ان کے رسمی تعلقات قائم رہے۔ اس طرح، غالب کے کلکتہ آنے سے پہلے ہی ان کے خلاف ایک مُحاذ تیار ہو چکا تھا۔ افضل بیگ نے اہلِ کلکتہ کو ان کے خلاف بھڑکانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہ خبر اڑائی گئی کہ غالب قتؔیل کو برا بھلا کہتے ہیں، جس کی وجہ سے حامیانِ قتؔیل، غالب سے بدظن ہو گئے۔ افضل بیگ نے اہل ِسنّت میں انہیں کٹّر رافضی، اور اہلِ تشیع میں انہیں صوفی و ملحد و زندیق مشہور کر دیا۔ غالب کی شخصیت کو متنازع بنانے کے لئے یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ غالب اپنا نام اور تخلص بدلتے رہتے ہیں، تا کہ کار پردازانِ دفتر کو نام کے جھگڑے میں ایسا پھنسا دیا جائے کہ وہ غالب کی درخواست ہی کو گورنر جنرل تک نہ پہنچائیں۔ مجبوراً نام کے معاملے میں غالب کو اپنی صفائی میں حکومت کو ایک خط لکھنا پڑا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افضل بیگ نے غالب پر شراب نوشی، قمار بازی، فضول خرچی اور رنگینیئ مزاج کے الزامات نہیں لگائے! (شاید اس وجہ سے کہ ان معاملات میں یہ سارے ایک ہی جیسے تھے)۔ مارچ 1828 میں گورنر جنرل کا دربار لگنا تھا۔ غالب دو دن پہلے گورنمنٹ کے سیکرٹری کے نائب میر منشی سے ملے، اور دربار میں شامل کرنے کی درخواست کی، جو منظور ہو گئی۔ دس مدوعین میں سے غالب کا دسواں نمبر تھا۔ Acting Governor General William Bayley تشریف لائے، اور فرداً فرداً سب سے ملے۔ غالب نے دو اشرفیاں بطور نذر پیش کیں جو Bayley نے واپس کر دیں۔ خلافِ امید خلعت نہیں مِلی۔
مقدمہ
پریزیڈنسی میں گورنر جنرل کے لئے بھیجی ہوئی درخواستیں سب سے پہلے William Fraser کے پاس پہنچتی تھیں، اور وہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے صاحبانِ کونسل کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ اگر کوئی درخواست قابلِ قبول نہ ہوتی، تو وہ اسے رد کر دیتے اور کونسل تک نہیں پہنچاتے۔ غالب 28 اپریل 1828 کو ان کے پاس درخواست لے کر پہونچے، جو Fraser نے منظور کر لی۔ اس میں غالب نے سارا تاریخی پس منظر لکھا تھا، اور آخر میں تین مطالبات رکھے تھے: اول یہ کہ حکومت نصر اللہ بیگ کے ورثا کا خود تعیّن کرے اور ہر ایک وارث کو الگ الگ پنشن دی جائے، دوئم یہ کہ جو رقم نواب احمد بخش خاں نے جائز ورثا کو نہیں دی، اور پچاس سواروں کے دستے پر خرچ نہیں کی، وہ سب نواب صاحب کی جاگیر سے وصول کی جائے، سوئم یہ کہ پنشن سرکاری خزانے سے ادا کی جائے۔ اُن کی عرضداشت کا لُبِ لباب یہ تھا کہ اگر انگریز سرکار خواجہ حاجی کو وفادار سمجھتی تھی، اور ان کے ورثا کو پنشن دینا چاہتی ہے تو یہ رقم براہ راست سرکار کے خزانہ سے جانی چاہیے نہ کہ نصراللہ بیگ کے ورثا کی پنشن کی رقم سے۔ بقول غالب، جب وہ رخصت ہونے لگے تو Fraser نے ملازم سے عطردان اور پاندان منگوا کر غالب کی عطر اور پان سے تواضع کی۔ نیز سروقد کھڑے ہو کر غالب کا سلام قبول کیا۔ ایک اور افسر، Andrew Stirling جو پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ میں گورنمنٹ کے معتمدِ فارسی اور ڈپٹی سیکرٹری تھے، کو غالب سے ہمدردی تھی۔ غالب نے ان کی مدح میں پچپن اشعار کا ایک قصیدہ کہا۔ لیکنFraser اور Stirling دونوں نے کہا کہ عرضداشت پہلے دہلی کے ریذیڈنٹ کے سامنے پیش کرنی چاہیے تھی، اور پھر وہاں سے اُن کے پاس آنی چاہیے تھی۔ پھر بھی اُن دونوں نے اِسے کونسل کے سامنے رکھنے کا وعدہ کیا، غالب کو کچھ امید بندھی۔ افضل بیگ نے ایک طویل جوابِ دعویٰ پیش کیا، جس میں انہوں نے خواجہ حاجی (اور بعد میں ان کے بیٹوں) کو پنشن ملنے کا ہنر مندی سے دفاع کیا۔ بقول ان کے، خواجہ حاجی کا خاندان اگر اتنا ہی گھٹیا ہے تو غالب کے آباؤ اجداد نے خواجہ حاجی کے خاندان میں اپنی بیٹی کیوں بیاہی؟ نیز یہ کہ سرکار نے اثاثہ کے دستاویز میں خواجہ حاجی کا نام سب سے اوپر رکھا۔ افضل بیگ نے غالب کو جھوٹا اور مکّار کہا کیونکہ یہ شخص موقع کی مناسبت سے اپنا نام بدلتا رہتا ہے، کبھی اسد، کبھی مرزا نوشہ اور کبھی نام کے ساتھ خان اور کبھی بیگ لگاتا ہے۔ اس کا دماغی توازن درست نہیں ہے، مگر سب سے خطرناک الزام یہ لگایا کہ غالب، Lord Lake اور Acting Governor General George Barlow کو غیر ذمہ دار سرکاری اہلکار سمجھتے ہیں، جنہوں نے بغیر پڑھے دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ بقول افضل بیگ، اگر اس بنا پر دستاویز کو جعلی قرار دے دیا جائے تو نہ صرف خواجہ حاجی کا خاندان، بلکہ ہر شخص جس کا نام اس دستاویز میں ہے، بشمول غالب، پنشن سے محروم ہو جائے گا!
کلکتہ کا ادبی معرکہ
غالب باندے اور دہلی میں اپنے دوستوں کو طویل فارسی خطوط کے ذریعہ کلکتہ کے حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ کلکتہ میں افضل بیگ نے تین مشاعروں کا اہتمام کیا۔ غالب کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی، تاکہ ان کو کم عِلم ثابت کیا جا سکے، ہلڑ بازی کا بھی انتظا م کیا گیا۔ پہلا مشاعرہ یکم جون 1828 کو منعقد ہوا۔ عوام اور خواص دونوں نے غالب کا کلام پسند کیا، اور کسی قسم کا ہنگامہ نہیں ہوا۔ دوسرے مشاعرے میں بھی سامعین نے خاموشی سے غالب کی غزل سن لی، وہاں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ ایک ہفتہ کے بعد کسی صاحب نے فارسی کے ایک شعر کے تین الفاظ پر نکتہ چینی کی، اور ثبوت میں قتؔیل کی قواعد کی کتابیں ’چہار شربت‘ اور ’نہرالفصاحت‘ پیش کیں۔ غالب نے ایک خط میں لکھا کہ وہ ان جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے، اورانہیں کوئی جواب نہیں دیں گے۔ 15 جون 1828 کو تیسرا مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس دفعہ ان کے فارسی کے اشعار پر کھُل کر تنقید ہوئی اور ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔ قتؔیل کی کتابوں کو سند کے طور پر پیش کیا گیا۔ پہلی بار غالب اور قتؔیل کی شاعری کا موازنہ کیا گیا۔ یہ بات غالب کو انتہائی ناگوار گزری کیونکہ وہ قتؔیل کو فارسی داں مانتے ہی نہیں تھے۔ اپنے دفاع میں انہوں نے بیدؔل، جاؔمی، سعؔدی اور حاؔفظ کے اشعار پیش کیے، مگر مخالفیں کے حملے جاری رہے۔ نہ صرف اعتراضات کیے گئے بلکہ تحریرات بھی لکھی گئیں، اور بعض تحریرات ’جامِ جہاں نما‘ نے جو فارسی کا ہفت روزہ اخبار تھا، چھاپ دیں۔ اخبار نے ان کے مقدمے کے بارے میں بھی ایک منفی خط چھاپا۔ علامہ اسد اللہ انوری نے 1938 میں اس معرکے کے بارے میں تفصیل سے اپنی کتاب ’قتیل و غالب‘ میں لکھا۔ غالب اس صورتِ حال سے بہت پریشان تھے۔ ان کو یہ خوف بھی تھا کہ ان کے واپس جانے کے بعد کلکتہ کے لوگ برسوں تک یہ کہیں گے، کہ ایک لڑاکو، گستاخ، اور بے شرم شخص دہلی سے آیا تھا جو لڑ لڑا کر واپس چلا گیا، اس کے باعث برسوں تک میری اور، شہرِ دلی کی بدنامی ہوگی۔ انہوں نے ہُگلی والے نواب اکبر علی خاں سے صلاح لی، انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنا دعویٰ (یعنی کہ وہ ہندوستان کے سب سے بڑے فار سی داں ہیں) چھوڑ دو، اور بطور عُذر کچھ لکھ دو۔ غالب نے فارسی میں ایک مثنوی ’آشتی نامہ‘ لکھی، جس میں عوام سے معافی مانگی، اعتراضات کے جواب دیے، کہیں کہیں قتؔیل کی تعریف بھی کی، لیکن آخر میں یہ کہتے ہوئے رہ نہ سکے، کہ قتؔیل مجھ سے بہتر نہیں ہے، اور میں ہی ہندوستان کا مستند فارسی داں ہوں۔ پندرہ بیس سال بعد غالب نے اس مثنوی میں کچھ ردوبدل کر کے اس کا نام ’بادِ مخالف‘ رکھ دیا۔ غالب نے اپنے چار خطوط میں لکھا، کہ مشاعروں کے دوران سفیرِ ہرات بھی حاضرین میں موجود ہوتے تھے، اور انہوں نے ہلڑ بازوں سے کہا کہ اس شخص کو غور سے سنو کیونکہ اس کے پائے کا فارسی کا شاعر ایران میں بھی کوئی نہیں ہے! بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ سفیرِ ہرات کسی بھی مشاعرے میں موجو د نہیں تھے۔
غالب اس کے بعد کئی سالوں تک نجی محفلوں میں اور خطوط میں قتؔیل کو برا بھلا کہتے رہے، ایک خط میں تو انہوں نے قتؔیل کو’ الّو کا پٹھا‘ لکھا۔ اُن کو اس بات کا دکھ تھا کہ قتؔیل جیسے گھٹیا شاعر کو کلکتہ میں اتنی مقبولیت حاصل ہے اور اُن جیسے فارسی داں کی پذیرائی نہیں ہوئی۔ اپنے سفرِ کلکتہ کے دوران غالب نے بیشمار خطوط لکھے مگر سب فارسی میں۔ اشعار بھی کافی لکھے مگر زیادہ تر فارسی میں۔ کلکتہ میں غالب کی دوستی سراج الدین احمد خاں سے ہو گئی، وہ کونسل کے دفتر میں ملازم تھے۔ یہ دوستی 35 برسوں تک قائم رہی۔ غالب کے سب سے زیادہ فارسی خطوط انہیں کے نام ملتے ہیں۔ ’گلِ رعنا‘ غالب کی 116 اردو اور 27 فارسی کی، اُن غزلوں کا انتخاب ہے جو انہوں نے سفرِ کلکتہ اور قیامِ کلکتہ کے دوران کہی تھیں۔ یہ کام انہوں نے سراج الدین احمد خاں کی ہی فرمائش پر کیا تھا۔ اس دوران کُل فارسی کی غزلیں جو انہوں نے کہیں، وہ 27 سے کہیں زیادہ ہیں۔
واپسی کی تیّاری
اس دوران، فارسی میں لکھی ہوئی مرزا غالب کی عرضداشت، اور افضل بیگ کا جوابِ دعویٰ، انگریزی میں ترجمہ کے بعد، کونسل کے سامنے رکھی گئیں۔ Governor General Lord William Bentnick نے Fraser اور Stirling کی سفارشات سےاتفاق کیا کہ عرضداشت دہلی کے ریذیڈنٹ کی معرفت ہی بھیجنی ہو گی۔ (حیرت کی بات ہے کہ غالب کے دہلی میں وکیل، ہیرا لال، نے یہ بنیادی بات غالب کو دہلی چھوڑنے سے پہلے نہیں بتائی!) غالب پریشان ہو گئے۔ طے یہ پایا کہ غالب کلکتہ ہی میں رہیں، اور اپنے کاغذات بذریعہ ڈاک ریذیڈنٹ کے پاس کارروائی کے لئے بھیجیں۔ غالب نے رجسٹرڈ ڈاک سے مختار نامہ ہیرا لال کو بھیجا، اس کے بعد عرضداشت اور متعلقہ کاغذات بھیجے، جو ہیرا لال نے دہلی میں Resident کے دفتر میں جمع کروا دیے۔ اسی دوران یکم اگست 1829 کو کلکتہ میں ایک اور دربار ہوا۔ غالب کی Governor General Lord William Bentnick سے ملاقات ہوئی۔ غالباً اس دفعہ بھی انہیں خلعت نہیں مِلی، ورنہ اس کا ذکر وہ اپنے خطوط میں ضرور کرتے۔ دربار میں انہیں پتہ چلا کہ گورنر جنرل اور ارکانِ کونسل قافلے کی صورت میں دہلی جا رہے ہیں۔ غالب نے سوچا کہ دہلی سے ریذیڈنٹ کی رپورٹ دو تین ماہ میں بھی نہیں پہونچے گی، اس لئے ان کو قافلے سے پہلے دہلی پہنچ جانا چاہیے۔ سب سے تیز راستہ پانی کا تھا، مگر وہ سب سے مہنگا بھی تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غالب کو دہلی جانے کی لئے ڈیڑھ ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ گھوڑا ڈیڑھ سو روپوں میں پہلے ہی بیچ چکے تھے، باندے والےمحمد علی خاں دو دفعہ دو، دو سو روپے بھیج چکے تھے، والدہ نے آگرہ سے 475 روپے بھیجے۔ کلکتہ آنے کے بعد انہوں نے مزید قرض کے لئے باندے والے نواب ذوالفقار علی بہادر کو کئی خطوط لکھے، مگر قرض تو کیا، انہوں نے کسی خط کا جواب تک نہیں دیا۔ غالب نے کلکتہ کے ایک بڑے مہاجن راؤ شیو رام سے ملاقات کی۔ خلیق انجم صاحب نے لکھا ہے ’چوں کہ غالب قرض حاصل کرنے کے فن کے ماہر تھے، اس لئے امکان ہے کہ انھیں کچھ نہ کچھ رقم مل گئی ہو گی‘۔ غالب 20 اگست 1829 کو کلکتہ سے روانہ ہو کر 18 نومبر 1829 کو دہلی پہنچ گئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گورنر جنرل نے بنارس پہنچ کر دفعتاً اپنا ارادہ بدل لیا، اور سارا قافلہ واپس کلکتہ آگیا۔ اور غالب دہلی میں!!
دہلی
Resident Edward Colebrooke، جو غالب کا مقدمہ دیکھ رہے تھے، کو بدعنوانیوں کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا، ان کی جگہ کچھ عرصہ کے لئے کلکتہ سے ولیم فریزر بلائے گئے، اور اب نئے قائم مقام ریذیڈنٹ Francis Hawkins کی تقرری ہوئی تھی۔ غالب کو جب پتہ چلا کہ وہ ان کا مقدمہ دیکھیں گے توانہوں نے اُن کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا، اور بقول غالب ’ہاکنِس نے مجھ سے پورے ایک گھنٹےتک قصیدہ سنا‘۔ Hawkins کے نواب شمس الدین کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، ہاکنِس ہی کے حکم سے ان کو لوہارو کا علاقہ واپس ملا تھا، اور اب وہ Nawab of Loharu کہلاتے تھے۔ گورنر جنرل نے ہاکنِس سے مقدمہ کی رپورٹ طلب کی۔ ہاکنِس نے 4 مئی 1806 کی سند، اور 7 جون 1806 کی دستاویز منگوائیں۔ 4 مئی کی سند میں دس ہزار کی رقم درج تھی، مگر اس کی تقسیم کی تفصیل نہیں دی گئی تھی، اور Acting Governor General Sir George Barlow نے اس کی توثیق بھی کر دی تھی۔ 7 جون کی متنازع دستاویز کا ریکارڈ ریذیڈنٹ کے دفتر میں نہیں ملا۔ پتہ یہ چلا کہ نواب احمد بخش نے Lord Lake سے دستخط لے کر اور مہر لگوانے کے بعد اس کو ریذیڈنٹ کے دفتر میں رجسٹرڈ ہی نہیں کرایا تھا۔ نواب احمد بخش کے مرنے کے بعد یہ دستاویز ان کے بیٹے نواب شمس الدین کے قبضے میں آ گئی، اِن انکشافات نے غالب کے موقف کی تائیدکی کہ یہ دستاویز جعلی ہے۔ ہاکنِس نے یہ دستاویز نواب شمس الدین سے لے کر Sir John Malcolm کے پاس جانچ پڑتال کے لئے بمبئی بھجوائی۔ وہاں سے اطلاع آئی کہ اس دستاویز پر Lord Lakeکے دستخط اور مُہر اصلی ہیں۔ ہاکنِس نے 8 اکتوبر 1830 کو Chief Secretary George Swinton کو غالب کے دعویٰ کے خلاف رپورٹ بھیجی، ( ہاکنِس جب ریٹائر ہوا تو غالب نے اس بار اس کے ہجو میں ایک قطعہ لکھا)۔ یکم مئی 1832 کو کلکتہ میں، کونسل اور گورنر جنرل نے فیصلہ دے دیا کہ غالب کی پنشن میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
بقایاجات
فیصلہ کی رو سے غالب کے 1500 روپے سالانہ کی پنشن میں سے 400 روپے ان کی بیوی کو ملنا چاہیے تھے، مگر غالب نہیں دیتے تھے۔ سفرِ کلکتہ اور کلکتے میں قیام کے دوران تقریباً دو سال غالب نے پنشن نہیں لی۔ لیکن جو 400 روپے سالانہ ان کی بیوی کو ملنا تھے، وہ ملتے رہے۔ پھر بھی امراؤ بیگم کو تین ہزر روپوں کے اپنے زیورات بیچنا پڑے۔ 12 اگست 1833 کو امراؤ بیگم نے William Fraser کو درخواست دی کہ اُن کے شوہر کے بقایاجات سے انھیں بھی رقم دلوائی جائے۔ 24 اگست 1833 کو فریزر نے نواب شمس الدین خاں کو ہدایت دی کہ وہ امراؤ بیگم کو تین ہزار روپے ادا کریں، اور غالب کے پنشن کے 1500 روپوں میں سے 400 روپے براہِ راست امراؤ بیگم کو ادا کیا جاتا رہے۔ امراؤ بیگم نے پنشن کی تین ہزار کے بقایاجات کے لئے کمشنر کی خصوصی عدالت میں درخواست دی، لیکن یہ درخواست نامنظور ہوئی۔
ایک اور کوشش
1832 میں William Fraser تیسری دفعہ دہلی کے پولیٹکل ایجنٹ بنے تھے۔ (ریذیڈنٹ کو اب پولیٹکل ایجنٹ کہا جاتا تھا)۔ نواب شمس الدین کا اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں سے جائیداد پر جھگڑا ہوا۔ فریزر نے سفارش کی کہ لوہارو کا علاقہ ان کے چھوٹے بھائیوں کو ملنا چاہیے۔ اس بات پر نواب شمس الدین اُن کے دشمن ہو گئے۔ ایک رات جب Fraser گھوڑے پر سوار جا رہے تھے تو نواب کے ایک ملازم کریم خاں نے انہیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ اُس وقت کریم خاں کے ساتھ اینا نامی ایک میواتی ملازم بھی تھا، اینا وعدہ معاف گواہ بن گیا، نواب شمس الدین اور کریم خاں کو 1835 میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی ساری جائیداد ضبط ہو گئی۔ موقع غنیمت جان کر غالب نے اپنی درخواست آگرہ Presidency میں پیش کر دی۔ ان کا دعویٰ وہی تھا کہ 4 مئی 1806 کی سند کی بنیاد پر ان کے اوران کے متعلقین کے دو لاکھ تین ہزار روپے واجب الادا ہیں، جو ان کو مرحوم نواب شمس الدین کی ضبط شدہ جاگیر سے ملنے چاہیے۔ جب یہ معاملہ اوپر گیا تو Governor General George Auckland نے 28 اپریل 1836 کو اس درخواست کو رد کر کے یہ مقدمہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ ہر طرف سے ناکام ہو کر غالب نے Governor General Edward Ellenborough کی معرفت ایک عرضداشت ملکہ وکٹوریہ کو بھیجی، جس میں پنشن میں اضافے کی درخواست تھی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ درخواست ملکہ تک پہونچی یا نہیں؟
مئی 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد غالب کی پنشن بند ہو گئی۔ تین سالوں کی لگاتار جدوجہد کے بعد آخر مئی 1860 میں پنشن دوبارہ جاری ہوئی، مگر پھر وہی 1500 روپے سالانہ! غالب نے 1823 سے 1860 تک یعنی تقریباً 37 سال پنشن میں اضافے کے لئے مستقل جدو جہد کی، مگر ناکام رہے۔
متفرقات
* غالب نے اردو میں، غالب اور اسؔد دونوں تخلص استعمال کیے، مگر فارسی میں صرف غالب کا استعمال کیا۔
* اردو میں روایت ہے کہ شاعر نے ابتدا فارسی سے کی، اور بعد میں اردو میں شعر کہنے لگا ہو، غالباً صرف غالب اور اقباؔل ہی ایسے شعرا ہیں جنہوں نے پہلے اردو میں شاعری کی اور بعد میں فارسی میں۔
* غالب نے پہلی بار 1861 میں ایک خط کے ذریعہ، ایک ایرانی نژاد فارسی عالِم عبد الصمد (جس کا نام مسلمان بننے سے پہلے ہرمُزد تھا) کا ذکر کیا۔ بقول ان کے، انہوں نے فارسی اُس سے سیکھی تھی، مگر تحقیق کے بعد اس شخص کے خارجی وجود کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ غالب ہندوستان کے فارسی فرہنگ نویسوں کو مستند نہیں مانتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنے فارسی کے استاد کے لئے ایک فرضی ایرانی فارسی دان کو پیدا کیا۔
* وزیر خانم 1811 میں ایک کشمیری سادہ کار (سونے کے زیورات بنانے والے) کے گھر پیدا ہوئیں، اور وہیں پلی بڑھیں۔ پھر وہ Edward Marston Blake، جو جے پور کے Assistant Political Agentتھے، کے ساتھ رہنے لگیں۔ ان سے ان کی دو اولادیں ہوئیں: امیر مرزا اور بادشاہ بیگم۔ 1830 میں Blake کے انتقال کے بعد وزیر خانم، لوہارو کے نواب شمس الدین خاں کے گھر آ گئیں۔ یہاں داؔغ دہلوی پیدا ہوئے۔ 1835 میں نواب صاحب کو پھانسی ملنے کے بعد وہ رام پور چلی گئیں جہاں انہوں نے آغا تراب علی سے تعلقات قائم کیے، اُن سے ایک بیٹا (آغا شاغل) پیدا ہوا۔ آغا تراب علی کی وفات کے بعد، 1846 میں وزیر خانم نے ولی عہدِ سلطنتِ مغلیہ شہزادہ فتح الملک بہادر (مِرزا فَخرو) سے شادی کر لی۔ ان سے ایک بیٹا، مرزا خورشید عالم، پیدا ہوا۔ اس طرح داؔغ دہلوی کے مختلف رنگ ونسل و عمر کے چار سوتیلے بھائی بہن تھے۔ 1856 میں مِرزا فَخرو کا ہیضے سے انتقال ہو گیا، یا ان کو زہر دے دیا گیا۔ اس کے بعد وزیر خانم کو ساکنِینِ حرم نے محل سے نکال دیا۔ 1857 کے غدر کے بعد مرزا خورشید عالم نے دہلی میں بھیک مانگ کر باقی ماندہ زندگی گزاری۔
* نواب احمد بخش کی پہلی گھروالی ’مدنی‘ ایک میواتن (میوات کے علاقہ کی رہنے والی) تھی، اور دوسری ’بیگم جان‘ ایک اُزبک۔ اِن نواب کی نسل سے نہ صرف داؔغ دہلوی، بلکہ ہندوستان کے سابق صدر فخر الدین علی احمد اور پاکستان کے جمیل الدین عاؔلی بھی تھے۔
* اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انگریز اپنے وفاداروں، اور ان کے ورثا کی نسل در نسل سرپرستی کرتے تھے، مثلاً خطابات، جاگیر، پنشن وغیرہ سے۔
* غالب کی والدہ، عزۃ النسا، نے ساری زندگی آگرے میں گزاری۔
* غالب کے یہاں سات بچّے پیدا ہوئے تھے، جن میں سے کچھ مردہ پیدا ہوئے اور باقی کم عمری ہی میں وفات پا گئے۔