قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کو بچپن سے ہی گھر کا سربراہ بننے کا شوق تھا۔ اس نے جوانی ذاتی شوق پورے کرنے اور عیاشیوں میں گزار دی۔ بچپن سے ہی بدزبان تھا۔ گھروالوں کا گمان ہے کہ اسی دوران اس کو نشے کی لت بھی لگ گئی۔ بچے کی جوانی میں شروع ہونے والی خراب عادتیں بڑی عمر میں بھی اس کے ساتھ رہیں نیز وہ گھر گھرستی سیکھنے سے عاری رہا۔ باپ چونکہ دوسرے کاموں میں مصروف رہتا، اس لئے اِس بیٹے کی غیرسنجیدگی اور خراب عادتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے گھر کے معاملات بڑے بیٹے کے حوالے کیے ہوئے تھے جو گھر کے تمام امور کا بخوبی خیال رکھتا تھا۔
بچہ، جس کا نام والدین نے امام دین رکھا تھا، اِمو کے نام سے جانا جاتا تھا اور نشے کے شک کی وجہ سے لوگ اس کو اِمو نشئی بھی کہتے تھے۔ اس کو ہمیشہ حسرت رہتی کہ گھریلو معاملات اس کے حوالے کیے جائیں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے اِمو نے بڑی کوشش کی کہ اس کا والد کسی طرح گھر کے معاملات اس کے حوالے کر دے لیکن باپ نے سنی ان سنی کر دی۔ اِمو اکثر باپ سے بڑے بھائی کی شکایت کرتا کہ وہ تندہی اور ایمانداری سے گھر نہیں چلاتا اور گھر کے اخراجات کے لئے مختص پیسے بھی چوری کرتا ہے۔ والد صاحب کو چوری والی بات پر تشویش ہوئی اور تسلی کے لئے ان باتوں کی تحقیق بھی کی لیکن ساری باتیں جھوٹ ثابت ہوئیں۔ اِمو نے بہرحال ضد نہ چھوڑی اور جب ضد کی انتہا ہو گئی تو والد صاحب نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام چلایا لیکن بالآخر اس بات پر راضی ہو گیا کہ وہ گھر کے معاملات اِمو کے حوالے کر دے گا لیکن معاملات اِمو کے سپرد کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑا بھائی تھا جو گھر بخوبی سنبھال رہا تھا لیکن اِمو نشئی کے باپ نے اِمو کے زیادہ تنگ کرنے کی وجہ سے بڑے بیٹے پر چوری کے شبے میں گھر اپنے نشئی سپوت کے سپرد کر دیا۔
گھر کے امور اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے اِمو نشئی نے بڑے پاپڑ بیلے۔ جب گھر بڑے بھائی کے حوالے تھا تب ایک دفعہ گھر میں دوسرے شہر سے مہمان آ رہے تھے لیکن نشئی نے اپنی مرضی پوری نہ ہونے کی بھڑاس نکالنے کے چکر میں پورے گھر کو سر پر اٹھایا ہوا تھا جس کی دیکھا دیکھی مہمانوں نے مجبوراً اپنا پروگرام منسوخ کیا کیونکہ ان کو فکر تھی کہ کہیں اِمو یا اس کے دوست ان کو نقصان نہ پہنچائیں۔
اِمو کے روز بروز کے نخروں سے تنگ آ کر باپ نے یہ فیصلہ گھر والوں پر چھوڑ دیا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا گھر کی سربراہی حسب معمول بڑے بھائی کے پاس رہے گی یا نشئی کے پاس۔ گھروالے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کے بڑا بھائی ہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کرے گا۔ یہ کرنا تھا کہ نشئی طیش میں آ گیا اور اس نے اپنے کچھ پیسے والے اور بدمعاش دوستوں کی مدد سے گھر کی قیمتی اور ضروری چیزیں توڑ دیں اور دھمکی دی کہ اگر گھر کے معاملات اس کے حوالے نہ کیے گئے تو وہ گھر کو تالا لگا دے گا۔ اِمو کی اس حرکت کا مقصد والد صاحب کو باور کروانا تھا کہ گھر کے معاملات اس کے حوالے کیے جائیں ورنہ اچھا نہ ہوگا۔
اِمو نشئی نے گھر کے امور کی حوالگی کے لئے گھروالوں کو بڑے بھائی کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا اور سہانے خواب دکھانا شروع کر دیے کہ اگر گھر اس کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہ نہ صرف گھر والوں کو خوشحال کر دے گا اور ان کے خاندان پر جو قرض ہے وہ اتارے گا بلکہ بیروزگار رشتے داروں کو نوکریاں دلائے گا، غریب رشتے دار جن کے پاس اپنے گھر نہیں ان کو گھر بنوا دے گا، خاندان کی آبائی زمینیں جو پانی کی کمی کی وجہ سے غیرآباد ہیں، پہلے ان کے لئے پانی کا مناسب بندوبست کرے گا اور پھر ان کو آباد کرے گا۔ گھروالوں کو اِمو نشئی کی باتیں اچھی تو لگیں لیکن یہ گمان بھی تھا کہ نشئی ہے، زندگی بھر نشہ کیا ہے، عیاشیوں میں مگن رہا ہے، اور کبھی گھر کی دیکھ بھال نہیں کی، یہ ایسی ناممکنات کو کیسے ممکن کرے گا۔ کچھ گھروالے اس بات پر راضی تھے کے گھر نشئی کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کی کسمپرسی ختم ہو اور خوشحالی آئے جب کہ بیشتر گھر والے اس بات سے متفق نہیں تھے۔ بہرحال ہونا تو وہی تھا جو باپ چاہے۔
بڑا بھائی، جس سے بعد میں باپ کو بھی شکایات تھیں، آخر راستے سے ہٹا دیا گیا اور باپ نے نشئی کے آئے دن کے جھگڑوں سے بیزار ہو کر گھر اس کے حوالے کر دیا۔ جن گھروالوں کو اس فیصلے پر اعتراض تھا انہوں نے کہا کہ باہمی مشاورت اور سب کی رضامندی سے گھر کے امور نشئی کے حوالے کیے جاتے تو بہتر تھا لیکن گھر کے بھلے کے لئے معترض گھروالوں نے خاموشی پر اکتفا کیا۔
گھر کے معاملات نشئی کو ملے تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ سب گھر والوں کو امید تھی کہ جس آبائی گھر میں وہ قیام پذیر ہیں وہ ان کے پڑ دادا نے بڑی محنت اور مشقت سے بنایا تھا، تو گھر کے معاملات ہاتھ میں آنے کے بعد اِمو نشئی اپنی اس کامیابی کے تشکر کے لئے پڑدادا کی قبر پر قل پڑھنے ضرور جائے گا لیکن نشئی نے پڑدادا کی قبر پر حاضری کی بجائے والد محترم کا بارہا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ وہ جس طرح چاہیں گے گھر کو اسی طرح چلایا جائے گا۔
اب گھر والے اس انتظار میں تھے کے ان کی خوشحالی کے جو وعدے اِمو نے ان کے ساتھ کیے ہیں وہ پورے ہوں لیکن گھر کے معاملات ہاتھ میں لینے کے چند دن کے اندر ہی نشئی نے گھر کی چیزیں بیچنا شروع کر دیں۔ بڑے بھائی نے اپنی سہولت کے لئے ایک سائیکل اور سکوٹر اور گھروالوں کے لئے ایک عدد گاڑی خریدی تھی مگر نشئی اب اس بات پر بضد تھا کہ زمینیں، برتن، پنکھے، بھینسیں وغیرہ بیچنے کے علاوہ وہ پرانی کھڑی سکوٹر، سائیکل اور گاڑی بھی بیچ دے گا تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ خاندان پر جو قرض کا انبار تھا وہ نشئی نے اب چندہ لے کر اتارنے کا کہا جس پر گھروالوں کی حیرانی مزید بڑھ گئی ہے۔ اب ان بیچاروں کو اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ نشے کے خمار میں کہیں اِمو گھر ہی نہ بیچ دے۔