سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ بھارت کی ایک کمپنی نے الیکشن کمیشن پاکستان تک یو این ڈی پی کے ذریعے رسائی حاصل کی۔ کولیٹیٹم انٹرنیشنل نے پاکستان الیکشن کمیشن کیلئے آر ایم ایس بنایاہے۔آر ایم ایس کی سیکورٹی کلیئرنس بھی بھارتی کمپنی نے کی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان فوری طور پر آر ایم ایس کو ختم کرکے متبادل ایپلیکیشن بنائے۔ قائمہ کمیٹی کو 5جی ٹیکنالوجی کے بارے ممبر پی ٹی اے نے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ 5جی لائسنس دینے کا کیا طریقہ کار ہے اور کس رول کے تحت Zong کمپنی کو اجازت دی گئی کہ وہ 5جی کے دعوے کر رہے ہیں۔ پی ٹی اے ایک خاص کمپنی کو کیوں پرموٹ کر رہا ہے جس پر ممبر پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ کہ اگر کوئی اپریٹر ایک فریم ورک کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایکٹ کے مطابق اُس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی اے نے زونگ کو فائیو جی نیٹ ورک کے ٹیسٹ کی تشہیر سے روک دیا ہے۔ پی ٹی اے نے زونگ کو نوٹس جاری کیا کہ انھوں نے غلط اشتہار دیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیلی نار 23 جولائی، پی ٹی سی ایل 8 اگست، موبی لنک 31 جولائی اور ایس سی او نے بھی ٹرائل کی درخواست دی۔ 5جی کیلئے 2017میں ٹیسٹ کرنے کیلئے ایک پالیسی بنائی گئی کوئی بھی ادارہ تین سے چھ ماہ کیلئے اُس کو ٹیسٹ کر سکتا تھا۔ زونگ نے جوائنٹ ونچر کے تحت اجازت حاصل کی اُس کے پاس اسپکٹرم بھی موجود تھے اُسکو ٹیسٹنگ کی اجازت دی گئی۔
سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ کمپنیوں نے اربوں ڈالر کما لئے اور ہم وہیں کے وہی کھڑے ہیں۔ چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ 5جی تیز ترین ٹیکنالوجی ہے 5جی کی خوشی میں ہم ملک کیلئے تباہی پیدا نہ کریں تمام چیزوں کا متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جائزہ لے کر ایک پلان تیار کریں اور سکیورٹی پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کل کے اخبار میں تمام چیزوں کو واضح کرے کہ کمپنی کو صرف ٹیسٹنگ کی اجازت دی گئی ہے اور سائبر سیکورٹی کے حوالے سے کتنا کام کیا گیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیکورٹی کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور 2023سے 2025تک 5جی ٹیکنالوجی قابل عمل ہو جائے گی۔ پاکستان اُن پانچ سے چھ ممالک میں شامل ہے جو 5جی کا ٹرائل کر رہے ہیں۔
دوسری جانب این ڈی ایم اے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اپلیکیشن بنانے کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ چند دن پہلے ملک بھر میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ بلوچستان میں زلزلے سے نقصانات بھی ہوئے اور ملک میں چند دن پہلے سیلاب نے بھی تباہی مچائی تھی کوئی ایسی موبائل اپلیکیشن ہونی چاہئے جس سے قدرتی آفات کی پیشگی کی اطلاع میسر ہو سکے۔
این ڈی ایم اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ ادارہ 1952سے کام کر رہا ہے مختلف ادوار میں مختلف مراحل طے کیئے 2005میں ایرا بنایا گیا۔2007میں این ڈی ایم اے میں تبدیل کیا گیا۔ سینیٹر رحمان ملک کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا گیا کہ ادارے کے سروس رولز نہیں بن سکے۔ قائمہ کمیٹی نے جلد سے جلد رولز بنانے کی ہدایت کر دی۔ چیئر پرسن سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ حکومت کے تمام ادارے ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں۔ ملکر کام کرنے سے ملک ترقی کی منازل طے کر تا ہے۔ قائمہ کمیٹی تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول وزارت آئی ٹی کو بلا کر ایک جامع اپلیکیشن تیار کرائے گی جس سے عوام اور خاص طور پر بچوں کو اوئل عمر ہی میں شعور دیا جا سکے کہ کس طرح قدرتی آفات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو این ڈی ایم اے کے حکام نے موبائل اپلیکیشن کی تفصیلات سے آگا ہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسا سسٹم بنا رہے ہیں جس میں ایک ونڈو کے ذریعے تمام ڈیٹا ہو گا جو صوبوں کومنتقل کیا جائے گا۔ سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی این ڈی ایم اے کی ہر ممکن سپورٹ کو تیار ہے۔
قائمہ کمیٹی نے رضاکارانہ فورس کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اسکو مختلف شعبوں میں استعمال کر کے مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ تین طرح کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طریقہ کار کو زیر استعمال لانے کا منصوبہ ہے۔ موسمیات کے لئے موبائل مینجمنٹ سسٹم کو بھی متعارف کروائیں گے۔آٹو میٹک میٹرلوجیکل سسٹم، آٹو میٹک ہائیڈرولوجیکل سسٹم متعارف کروائیں گے۔ جو ڈیٹا موصول ہوگا وہ این ڈی ایم اے، پی ایم ڈی، فلڈ فورکاسٹنگ اور زلزلہ پیما مرکز کو فراہم کریں گے۔
ٹیکنالوجی سے موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب کی پیش گوئی کا نظام تشکیل دیا جاسکے گا۔اس نظام سے عام آدمی بھی معلومات حاصل کر سکے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل ڈیزاسٹررسپانس فورس کی تشکیل کے لئے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے اور 3 جولائی کو سمری وفاقی حکومت کو بھجوائی گئی۔یہ فورس ملک بھر میں کسی بھی آفت کے ردعمل میں فوری اقدامات کرے گی۔
سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ زلزلے و سیلاب کے دوران عوام و سوشل ورکرز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ سول ڈیفنس پر ہم نے کوئی توجہ نہیں دی ہے جو کہ ایک اہم ادارہ ہے۔ سول ڈیفنس کو مکمل طاقت کیساتھ بحال کرکے ٹریننگ کے ذریعے فعال بنایا جائے۔ تربیت یافتہ جوان قدرتی آفات کی صورت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اسکاوٹنگ اور سول ڈیفنس کی تربیت شروع کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پوری دنیا میں سائبر دہشت گردی میں ملوث ہے اور بھارت کے ہیکرز کئی ممالک کا اہم حساس ڈیٹا چوری کر نے میں ملوث ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو آگا ہ کیا جائے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بھارت کی طرف سے کتنے سائبر حملے کئے گئے ہیں اور اسکے تدارک کیلئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کیا اقدام اٹھائے۔