نظریہ قانون کی رو سے عدالت کے تمام جج برابر ہوتے ہیں۔ بہت سے چیف جسٹس صاحبان یہ دعویٰ کرنے کے لئے کہ وہ 'تمام برابر ججوں میں سے محض پہلے نمبر پر ہیں' ایک لاطینی محاورے ‘primus inter pares’ کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ عدالت کی دانش سے مراد اجتماعی اور تمام ادارے کی مجموعی دانش ہوتی ہے اور چیف جسٹس کی عدالتی آرا کسی دوسرے جج کی رائے سے زیادہ وزن نہیں رکھتیں۔
لیکن کیا چیف جسٹس صاحبان جس اصول کا پرچار کرتے ہیں، خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں؟ روسٹر ترتیب دینے کے انچارج کی حیثیت سے ججز مقدمات کی سماعت کے لئے بنچوں کو تشکیل دینے کے لئے اپنے بے لگام صوابدیدی اختیار کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے چیف جسٹس کے سپریم کورٹ کے بطور منتظم اور بنچ کے رکن کے طور پر کردار کے مابین فرق دھندلا کر رہ جاتا ہے۔
کیا چیف جسٹس اس وقت فطری خواہش کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں جب وہ اپنی رائے کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے روسٹر پر اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے ایسے ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیتے ہیں جن کے چیف جسٹس کے ساتھ متفق ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے؟ چیف جسٹس کو حاصل طاقت سے اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ 'تمام برابر ججوں میں پہلے نمبر پر' ہونے سے زیادہ 'بنچ کے ماسٹر' بن جاتے ہیں۔ اور کیا یہ رجحان ہماری عدالت عظمیٰ کی حقیقت کو جارج آرویل کی منطق کے قریب تر نہیں لے جاتا جس کے مطابق تمام جج برابر ہوتے ہیں، لیکن کچھ جج دوسروں سے زیادہ برابر ہوتے ہیں؟
پاکستان میں ہونے والی یہ بحث نئی نہیں ہے۔ پانچ سال قبل بھارت میں 4 سینیئر ججوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام لگایا تھا کہ 'بھارتی قوم اور سپریم کورٹ کے لئے دور رس نتائج کے حامل مقدمات چیف جسٹس اپنی پسند کے بنچوں کے سپرد کرتے ہیں'۔ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جب چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار کو چیلنج کرنے کے لئے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تو چیف جسٹس دیپک مشرا نے جس طرح کا بنچ تشکیل دے کر اس کی صدارت کی، اس سے ان کے روسٹر کے سربراہ ہونے کا تاثر اور بھی واضح ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ان 4 باغی ججوں میں سے ایک جج جسٹس گوگوئی خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو انہوں نے خود بھی کسی قسم کا اصلاحاتی قدم اٹھانے سے سختی سے گریز کیا۔
محققین نے بھارت، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے عدالتی نظام میں چیف جسٹس کی جانب سے بنچوں کی تشکیل اور مقدموں کی تفویض سے متعلق اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کی ہے اور اس پہلو کی بھی جانچ کی ہے کہ آیا چیف جسٹس مطلوبہ نظریاتی نتائج تک پہنچنے کے لئے اپنے اس اختیار کو کسی خاص حکمت عملی کے تحت استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ کم از کم کچھ چیف جسٹس صاحبان کی حد تک اس سوال کا جواب اثبات میں ملا ہے۔ کچھ ممالک میں اس مسئلے سے بچنے کے لئے یا تو امریکہ کی سپریم کورٹ کی طرح سپریم کورٹ کے تمام ججز اجتماعی طور پر بنچ کا حصہ ہوتے ہیں یا پھر فلپائن، نیپال اور برازیل کی مانند تمام بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض میں چیف جسٹس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
پاکستان میں مذکورہ بحث اب سیاسی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد سے وابستہ سیاسی رہنماؤں کا الزام ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر ججز کا ایک گروپ موجود ہے جو ایک مخصوص نظریاتی جھکاؤ کا حامل ہے اور گذشتہ کچھ سالوں سے اہم سیاسی مقدمات یا تو مکمل طور پر ایسے بنچوں کے حوالے کیے گئے ہیں جن میں مخصوص ججز شامل تھے یا جن میں ایسے ججز کی اکثریت تھی۔ ان ججز کے لئے پی ڈی ایم رہنماؤں نے ' ہم خیال ججز' کی ترکیب وضع کی ہے اور اپنے دعوے کے حق میں کم و بیش درجن بھر ایسے مقدموں کی فہرست پیش کی ہے جن کے لئے بنائے جانے والے بنچز میں یہی ججز شامل تھے۔ اہم نوعیت کے ان سیاسی مقدمات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا معاملہ، پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد کی جانب 'لانگ مارچ' کرنے کا حق، آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح، نیب آرڈی ننس میں ترامیم کو چیلنج کیا جانا، اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی آڈیو لیکس کی انکوائری جیسے مقدمات شامل ہیں۔ مقدمات ہارنے والے فریقین کی جانب سے بنچوں سے متعلق شکایات عام بات ہیں، لیکن تین وجوہات کی بنیاد پر ان بنچوں پر اٹھنے والے یہ اعتراضات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔
پہلی وجہ یہ کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران عدالت عظمیٰ کی جانب سے سنے گئے کم و بیش سبھی ہائی پروفائل سیاسی مقدمات میں ایک یا ایک سے زیادہ مدعیان کی جانب سے فل کورٹ بنچ بنانے کا باضابطہ مطالبہ کیا گیا ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں اور جتنے پرزور انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس مطالبے پر مبنی تمام درخواستوں کو لیکن یکسر مسترد کر دیا گیا۔
دوسری وجہ یہ کہ بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض سے متعلق اختیار کے غلط استعمال کے تاثر نے، چاہے یہ بے بنیاد ہو، پارلیمنٹ سے دو ایکٹ منظور ہونے کی راہ ہموار کی جو سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور بنچز کی تشکیل کے طریقے کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق تھے۔ سابق وزیر خرم دستگیر نے پارلیمنٹ کی مذکورہ قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا، 'عدلیہ کی آزادی کا مطلب کسی ایک فرد کے لامحدود اختیارات نہیں ہوتا'۔ ان میں سے ایک ایکٹ سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور اس بار بھی الزام ہے کہ فیصلہ 'ہم خیال بنچ' نے سنایا۔
تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مختلف موقعوں پر سپریم کورٹ میں حاضر سروس کم از کم سات ججز نے چیف جسٹس کے بنچز کی تشکیل کے اختیار پر سوال اٹھائے ہیں اور ان میں سے بعض ججز نے آئینی معاملات سے متعلق اہم مقدمات سے مسلسل دور رکھے جانے پر سخت ترین احتجاج بھی کیا ہے۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جج جسٹس مقبول باقر نے اپنی الوداعی تقریر میں شکایت کی کہ 'حساس نوعیت کے مقدمات سے بعض ججز کو دور رکھنے سے جہاں ججوں کی غیر جانبداری پر منفی اثر پڑتا ہے، وہیں عوام کی نظر میں عدلیہ کی آزادی اور وقار کے تصور کو بھی زک پہنچتی ہے' اور اس اقدام نے 'بنچ پر موجود ججز کے مابین دراڑیں پیدا کر دی ہیں'۔
تاہم دوسری طرف کے ججز نے چیف جسٹس کے 'ماسٹر آف دی روسٹر' کے کردار، اپنی منشا کے مطابق بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض کے صوابدیدی اختیار کا بھرپور دفاع کیا ہے اور وہ اسے طے شدہ آئینی معاملہ سمجھتے ہیں۔
کون صحیح ہے؟ کیا چیف جسٹس روسٹر بنانے کے اختیار کو تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ کیا ایک منظم طریقے سے سیاسی اہمیت کے حامل کیسز میں کچھ ججز کو شامل اور کچھ کو خارج کیا جاتا ہے؟ کیا ان مقدمات کی سماعت کے لئے بنچز کے انتخاب میں چیف جسٹس کا (شعوری یا غیر شعوری) تعصب کارفرما ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ایک ٹھوس وجہ فراہم کرتا ہے۔
ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے ہم نے 31 دسمبر 2016 سے 30 جون 2023 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کا شماریاتی مطالعہ کیا۔ اس مدت میں گذشتہ تین چیف جسٹسز کے ادوار شامل ہیں (جب کہ موجودہ چیف جسٹس کے تین مہینوں کے علاوہ تمام عرصہ شامل ہے) اور اس مدت کے اندر سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے اعداد و شمار کو مرتب کیا گیا جو دو معروف قانونی جرائد PLD اور SCMR میں شائع ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس عرصے کے دوران سپریم کورٹ نے 1957 فیصلے سنائے (ان میں وہ فیصلے شامل نہیں جنہیں ایک سے زیادہ مرتبہ رپورٹ کیا گیا)۔
اس کے بعد ہم نے ان مقدمات میں سے 'سیاسی اہمیت' کے مقدموں کی نشاندہی کی۔ یقیناً کوئی مقدمہ سیاسی طور پر اہم ہے یا نہیں، اس پر مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔ شخصی پسند ناپسند کو ختم کرنا اگرچہ ناممکن ہے پر ہم نے اس کا دخل کم سے کم کرنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا۔ ہم نے طے کیا کہ صرف وہی مقدمہ سیاسی لحاظ سے اہم شمار ہو گا جو درج ذیل میں سے کم از کم ایک شرط پر پورا اترتا ہو:
i) ایسا مقدمہ جو کسی سیاسی جماعت کی جانب سے یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف دائر کیا گیا ہو؛
ii) جو کسی سیاست دان کی انتخابات میں شمولیت یا اعلیٰ سیاسی عہدہ رکھنے کی اہلیت سے متعلق ہو؛
iii) جو انتخابات کے انعقاد سے متعلق ہو یا جس کا انتخابی عمل پر گہرا اثر پڑ سکتا ہو؛
iv) جو کسی سیاست دان کے بارے میں مبینہ طور پر سنگین بدانتظامی سے متعلق ہو، جس میں انکوائریاں، فوجداری الزامات، ضمانت، سفری پابندیاں، اثاثے منجمد کرنا وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔
v) جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کسی بڑی قانون سازی، پالیسی، تقرری یا انتظامی فیصلے کو چیلنج کرنے سے متعلق ہو جس کا برسراقتدار پارٹی یا پارٹیوں کے سیاسی اثر و رسوخ پر براہ راست اثر پڑتا ہو؛
vi) ایسے معاملے سے متعلق ہو جو مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیوں یا ان کے سربراہوں کے لئے اہمیت رکھتا ہو۔
اس طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے ہم نے سیاسی لحاظ سے اہمیت کے حامل 134 مقدمات کی نشاندہی کی جن کی سماعت مذکورہ عرصے کے دوران ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے اہم سیاسی مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچوں کا موازنہ سیاسی لحاظ سے غیر اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچوں کی تشکیل سے کیا۔ اس مشق سے حاصل ہونے والے نتائج نے اوپر بیان کیے گئے سوالوں پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال، قاضی فائز عیسیٰ، طارق مسعود، اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، منیب اختر اور یحییٰ آفریدی وہ 7 سینیئر ججز ہیں جو کم از کم پانچ سال سے سپریم کورٹ میں تعینات ہیں۔ جب سیاسی لحاظ سے اہم مقدمات کی تفویض کی بات آتی ہے تو ان ججز کے معاملے میں اعداد و شمار کے لحاظ سے اہم اور واضح تفاوت نظر آتا ہے۔
ان سات ججز کو سیاسی لحاظ سے اہم اور غیر اہم مقدمات سننے کے لئے بنائے گئے بنچز میں کتنی مرتبہ شامل کیا گیا، ذیل کے جدول یہی موازنہ پیش کرتے ہیں۔
تاہم سیاسی لحاظ سے اہم مقدمات کے زمرے میں ججوں کی شمولیت میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال، جب کہ مقدمات کے حساب سے ان سے کچھ فاصلے پر موجود جسٹس منیب اختر (جن کی موجودہ اور سابقہ چیف جسٹس کے دور میں اس طرح کے کیسز میں شمولیت کی شرح ڈرامائی طور پر بڑھ گئی ہے)، کے سیاسی لحاظ سے اہم مقدمات کے بنچوں میں شمولیت کے امکان فہرست میں شامل دیگر چاروں ججز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ درحقیقت، سیاسی لحاظ سے اہم مقدمات کو بنچز کو تفویض کرتے وقت (یا سیاسی طور پر اہم مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی بنچ تشکیل دیتے وقت)، چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے جسٹس اعجاز الاحسن کو فہرست میں موجود آخری جج جسٹس سردار طارق مسعود کے مقابلے میں شامل کرنے کا امکان 9 گنا زیادہ رہا۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض ججز دوسرے ججوں سے زیادہ برابر ہیں۔
ہم نے ہر چیف جسٹس کی مدت ملازمت کا ڈیٹا الگ الگ بھی ترتیب دیا۔ اس سے بھی کئی دلچسپ رجحان سامنے آئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں سیاسی لحاظ سے اہم 60 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے۔ جسٹس ثاقب نثار 33 مرتبہ ایسے کیسز کا حصہ رہے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن 30 اور جسٹس عمر عطا بندیال 26 ایسے بنچز میں شریک ہوئے۔ جب کہ دوسری جانب جسٹس سردار طارق مسعود کو محض 3 ہی بنچز میں شامل کیا گیا اور جسٹس منصور علی شاہ اور یحییٰ آفریدی کو ایک بھی بنچ کا حصہ نہیں بنایا گیا، البتہ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آخری دونوں ججز کی تقرری چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور کے وسط میں ہوئی تھی۔
عام طور پر چیف جسٹس صاحبان خود کو سیاسی لحاظ سے غیر اہم مقدمات کے مقابلے میں سیاسی طور پر اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچوں میں شامل کرنے کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں اور یہ تناسب پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ اتنی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تاہم کچھ چیف جسٹس صاحبان اپنے ساتھ بنچ میں شامل ججز کے معاملے میں واضح ترجیحات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بنچوں میں جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت کے امکانات ان بنچوں میں شامل ہونے کے امکانات سے 10 گنا زیادہ تھے جن کی سربراہی چیف جسٹس خود نہیں کر رہے تھے۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کے سیاسی لحاظ سے اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ بننے کے امکانات سیاسی طور پر غیر اہم مقدمے میں ان کے شامل کیے جانے کے امکانات سے 3 گنا زیادہ تھے۔
اس کے برعکس چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی مدت ملازمت کے دوران اعداد و شمار کے لحاظ سے ایسا کوئی قابل ذکر تعلق سامنے نہیں آتا۔
یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ مفاد عامہ سے متعلق قانونی (اور سیاسی اعتبار سے) تمام اہم فیصلے PLD اور SCMR میں شامل ہیں، سپریم کورٹ کے بہت سے (نسبتاً غیر اہم) فیصلے رپورٹ نہیں کیے جاتے اور قانون کے مخصوص شعبوں سے متعلق اکثر (نسبتاً غیر اہم) تکنیکی فیصلے قانون کے مزید خاص جریدوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان فیصلوں کو ڈیٹا میں شامل کرنے سے بیان کردہ تفاوت میں مزید اضافہ ہونے کا ہی امکان ہے۔ ہماری تحقیق اور اس کے نتائج کے مکمل اور زیادہ علمی اظہار کو کسی اور موقع پر بیان کیا جائے گا، لیکن ہم یہاں عام قارئین کے لئے ابتدائی نتائج پیش کر رہے ہیں کیونکہ یہ واضح ہے کہ عدالت عظمیٰ میں بنچوں کی حسب منشا تشکیل سے متعلق شکایات مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہیں۔
عدالت کے ادارہ جاتی طریقہ کار، اس کی آزادی اور قانونی حیثیت کے تحفظ کے لئے بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض کا اختیار تن تنہا چیف جسٹس کے پاس نہیں رہنے دیا جا سکتا۔ کیونکہ اس سے:
i) عدالت عظمیٰ اور اس کے چیف جسٹس کی غیر جانبداری پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے
ii) کچھ ججز کو خواہ مخواہ تعصب کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
iii) ججوں کے مابین عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے اور دراڑیں بڑھتی ہیں
iv) بنچ میں شامل ججز کی ادارہ جاتی آزادی محدود ہوتی ہے۔ اگر چیف جسٹس کے ساتھ اختلاف کرنے کا نتیجہ مستقبل میں اہم نوعیت کے مقدمات سے علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہو تو ججز کے اختلاف کرنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اس سے کھلی اور اجتماعی بحث کا تاثر مجروح ہوتا ہے جو عدالت کے فیصلوں کو اجتماعی دانش کا مظہر بناتا ہے
v) عدالت کی بیرونی آزادی کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچتا ہے کیونکہ عدالت پر باہر سے اثر انداز ہونے کے متمنی عناصر کو متعلقہ معاملات پر اپنے حق میں عدالتی فیصلے لینے کے لئے صرف ایک جج (چیف جسٹس) کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت پر ادارہ جاتی کنٹرول حاصل کرنا کہیں زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اور بین الاقوامی مثالوں کو سامنے رکھ کر بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض کا اس سے زیادہ شفاف اور اعتماد ابھارنے والا طریقہ آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ختم ہو جائے گا (قانون دان جان سیلڈن سے معذرت کے ساتھ) کہ پاکستان میں انصاف کا انحصار چیف جسٹس کو حاصل اختیارات پر ہوتا ہے۔
**
باصم رضا، صلاح الدین احمد اور یاسر قریشی کی یہ مشترکہ تحقیقی رپورٹ The News International میں شائع ہوئی جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔