سمبڑیال؛ طلبہ کے مطالبے پر سپیریئر کالج نے احمدی استاد کو برطرف کر دیا

سپیریئر کالج کے طلبہ نے کالج میں احتجاج کیا اور احمدی برادری کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ احمدی استاد کو کالج سے نکالا جائے۔ کچھ روز قبل مقامی مذہبی شخصیات نے بھی کالج جا کر انتظامیہ سے یہی مطالبہ کیا تھا۔

03:18 PM, 16 Sep, 2024

نیوز ڈیسک

ضلع سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال میں واقع سپیریئر کالج نے احمدی ہونے کی بنا پر 11 سال سے پڑھانے والے استاد کو نوکری سے نکال دیا۔

سپیریئر کالج سمبڑیال میں مطالعہ پاکستان کے استاد وسیم افضال نے تصدیق کی ہے کہ طلبہ نے مذکورہ استاد سے پڑھنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد احمدی استاد نے اپنی خدمات جاری رکھنے سے معذرت کر لی تھی جسے انتظامیہ نے منطور کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق 10 ستمبر کو مذکورہ احمدی استاد کلاس میں لیکچر دے رہے تھے کہ مختلف جماعتوں کے طلبہ نے جمع ہو کر ان کے اور احمدی برادری کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ لیکچر ختم ہونے پر جب یہ احمدی استاد باہر نکلے تو لڑکے انہیں مارنے کے لئے ان کے پیچھے بھاگے جس پر موصوف نے دوسرے کیمپس میں جا کر کالج کی انتظامیہ کو تمام صورت حال بتائی۔ اس دوران دوبارہ نعرے بازی شروع ہو گئی جس پر وہ کالج سے نکل کر اپنے ایک دوست کے پاس چلے گئے۔

کالج کی انتظامیہ اس موقع پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ شام 4 بجے کے قریب انہیں کالج سے فون آیا کہ کالج کے دونوں کیمپس (بوائزاور گرلز) میں آپ کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور طلبہ و طالبات کا مطالبہ ہے کہ چونکہ آپ قادیانی ہیں اس لئے آپ کو فارغ کیا جائے ورنہ ہم سٹرکوں پر آ جائیں گے۔ اس لئے آپ کو نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ استاد کو اس سے قبل بھی مخالفت کا سامنا رہا ہے اور دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔ گذشتہ ماہ بعض مقامی مولویوں نے بھی کالج میں آ کر انہیں نوکری سے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سپیریئر کالج سمبڑیال میں مطالعہ پاکستان کے استاد وسیم افضال نے 'نیا دور' کے نمائندے منیر باجوہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ سپیریئر کالج کے بوائز اور گرلز کیمپس کے طلبہ و طالبات نے مذکورہ استاد سے پڑھنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے انتظامیہ کے سامنے معذرت کر لی کہ وہ مزید نہیں پڑھا سکتے۔ ان کی یہ درخواست انتظامیہ نے منظور کر لی۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ کالج میں ان کے خلاف احتجاج نہیں ہوا۔

وسیم افضال کے مطابق مذکورہ استاد کو جب ملازمت پہ رکھا گیا تو تبھی کالج انتظامیہ کو اس بارے میں علم تھا کہ وہ احمدی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ طلبہ کو ان کے عقائد کا علم اس وقت ہوا جب مذکورہ استاد کے ایک محلے دار طالب علم نے کالج میں آ کر ان کی مذہبی شناخت کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ختم نبوت سے متعلق طلبہ میں آگاہی پیدا ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ 7 ستمبر کو ملک بھر میں یوم ختم نبوت منایا گیا اور اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور تحریک لبیک پاکستان کے حامی طلبہ نے مذکورہ استاد کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا۔

ماہرین کے مطابق کسی کو عقائد کی بنا پر ملازمت سے محروم کرنا اور ہراساں کرنا انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ نیز وطن عزیز کا آئین اور قانون اس حوالے سے واضح ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 (1) کے مطابق تمام پاکستانی شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی حق دار ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 27 (1) کے مطابق کسی شہری کے ساتھ جو ملازمت کا اہل ہو، محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت، یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔

پاکستان میں مذہبی انتہاپسند عناصر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں شدت لاتے جا رہے ہیں اور احمدیوں کو کام کی جگہوں پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہیں ملازمتوں سے نکالنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اسی طرح احمدی دکانداروں کے بائیکاٹ کی ترغیب عوام کو دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے اور احمدیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں