اپیل میں کہا گیا ہے اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو اس ملک کے دشمنوں کو فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے گا۔
نظرثانی کی اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ افواج پاکستان اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
نظرثانی کی اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں افواج پاکستان کے سربراہان کو جو ہدایات دی ہیں وہ مبہم اور غیر واضح ہیں، ٹھوس شواہد کے بغیر نامعلوم افراد کے خلاف حلف کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فوج فیض آباد دھرنے میں ملوث ہے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد ہوا تھا۔
یاد رہے کہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائرکی ہے جس میں انھوں نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے نومبر 2017 کے فیض آباد دھرنے کے خلاف سنائے گئے ان کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔