اس انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گلف شوگر ملز کے مالکان نے جہانگیر ترین کو اپنی مل کم سے کم تخمینے یعنی 11.5 ارب روپے میں بیچی۔ اس مل کو خریدنے کے حوالے سے ابھی تک حکومت کا کوئی ادارہ تفتیش نہیں کر رہا۔
امپیریل شوگر مل
اس سے چند ہی ہفتے قبل، امپیریل شوگر ملز، جو کہ نوید شیخ کی ملکیت تھی، بھی جہانگیر ترین کو بیچ دی گئی۔ 4 جنوری 2019 کو امپیریل شوگر ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منڈی بہاء الدین کی تحصیل پھالیہ میں کرمانوالہ کے مقام پر واقع شوگر مل جہانگیر ترین کو بیچنے کی منظوری دی۔
یہ مل بھی اندازے کے مطابق جہانگیر ترین نے 7.5 ارب روپے میں کم سے کم تخمینے پر خریدی۔
انڈسٹری ذرائع کے مطابق دونوں ہی ملیں نقصان میں جا رہی تھیں اور مالکان بخوشی انہیں بیچنے پر تیار تھے۔ ان کی سمجھ سے باہر تھا کہ ان ملوں کو منافع بخش کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
ایف آئی کی رپورٹ چینی بحران پر کیا کہتی ہے؟
ایف آئی اے کی رواں ماہ سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق اس سال کی ابتدا میں کچھ چینی مل مالکان نے چینی کی قیمت اچانک 55 روپے فی کلو سے 80 روپے فی کلو پر لے جا کر خوب منافع کمایا ہے۔ رپورٹ میں پنجاب حکومت کی جانب سے اس بحران کو پیدا کرنے میں اہم کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔
کاغذوں پر جہانگیر ترین پاکستان کی چینی کی کل مارکیٹ کا تقریباً 20 فیصد کنٹرول کرتے ہیں، لیکن کسی حکومتی ادارے نے آج تک ان کی سرمایہ کاری کے اصل حجم کا اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں جمال دین والی گروپ کا تو ذکر کیا گیا ہے جس میں جہانگیر ترین کی سرمایہ کاری 37 فیصد ہے لیکن امپیریل شوگر ملز اور گلف شوگر ملز کے بارے میں اب تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔
ان دونوں ملوں سے متعلق تحقیقات ہونا کیوں ضروری ہے؟
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، قوانین موجود ہونے کے باوجود ملک میں چینی کے اصل ذخائر کا کوئی ریکارڈ سرکاری سطح پر نہیں رکھا جاتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملوں کے اندر چینی کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہے کیونکہ ملوں کے اندر بڑے بڑے گودام موجود ہوتے ہیں جو چینی کو ذخیرہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں بات یہ ہے کہ تاحال یہ نہیں معلوم کہ کس مل میں کتنی ذخیرہ اندوزی کی گئی۔ لہٰذا رپورٹ میں جہانگیر ترین کو قصوروار تو ٹھہرایا گیا ہے لیکن جب تک یہ پتہ نہیں لگایا جاتا کہ اس انڈسٹری میں ان کی سرمایہ کاری کا اصل حجم کیا ہے، یہ بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اس بحران میں ان کی ذمہ داری کتنی بنتی ہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 22 فیصد سبسڈی تو ان کو JDW گروپ میں ان کے حصے کے مطابق ملی ہے لیکن ان کی دیگر ملوں سے انہوں نے کتنا کمایا، یہ ابھی واضح نہیں۔
کیا چینی کے اصل ذخائر کا درست اندازہ لگانا ممکن ہے؟
رپورٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آیا چینی کی اصل پیداوار اور اس کی فروخت کی گئی مقدار کے حوالے سے بتائے گئے اعداد و شمار کو درست بھی مانا جا سکتا ہے یا نہیں، خاص طور پر جب پنجاب حکومت خود کہہ چکی ہے کہ چینی کے اصل ذخائر کا کوئی ریکارڈ سرکاری سطح پر حاصل نہیں کیا جاتا؟
شوگر انکوائری رپورٹ کے مطابق 20 لاکھ میٹرک ٹن اضافی چینی ہونے کے باوجود برآمدارت پر سبسڈی دے کر بحرانی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ گنّے کی کم پیداوار کے بارے میں خبردار کیے جانے کے باوجود پنجاب حکومت نے چینی کی برآمد پر 3 ارب روپے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ چینی برآمد کیے جانے سے ہی مارکیٹ میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور اسی قلت کے باعث چینی کی قیمت میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا۔
جہانگیر ترین ماضی میں بھی ’بددیانت‘ قرار دیے جا چکے ہیں
خود پر انگلی اٹھی تو جہانگیر ترین نے الزام وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر دھر دیا کہ انہوں نے ان سے ذاتی پرخاش کی بنا پر یہ رپورٹ بنوائی ہے۔ لیکن تاحال انہوں نے نقصان میں جاتی چینی ملوں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کے پیچھے وجوہات پر روشنی نہیں ڈالی۔
یاد رہے کہ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ انسائڈر ٹریڈنگ پر نااہل قرار دے چکی ہے اور اس سے بھی پہلے جسٹس وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں بنا ٹربیونل تحریک انصاف کے پارٹی کے اندر الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے جہانگیر ترین کو قصوروار قرار دے چکا ہے۔
ایف آئی اے کی مکمل فرانزک رپورٹ 25 اپریل کو جاری کی جانے والی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ تفصیلی رپورٹ میں جہانگیر ترین کی چینی کی انڈسٹری میں دیگر سرمایہ کاری پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔جہانگیر ترین صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے شوگر انڈسٹری میں بے پناہ پیسہ کمایا ہے لیکن یہ ان کی محنت کا صلہ ہے اور سبسڈی حاصل کرنے والے وہ اکیلے مل مالک نہیں کیونکہ اس سبسڈی سے ان کے حریفوں اور سیاسی مخالفین نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔
امید ہے کہ 25 اپریل کی رپورٹ حقائق کو منظرِ عام پر لائے گی۔
نوٹ:یہ رپورٹ geo.tv ٹی وی پر شائع ہوئی تھی جسے نیا دور کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔