باقاعدہ حکومت کے قیام تک نگران پنجاب حکومت کام جاری رکھے گی

09:00 AM, 17 Apr, 2023

حسن نقوی
ملک میں قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد تک نگران حکومت برقرار رہے گی اور انتخابات کے بعد حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں گے۔

علاوہ ازیں الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں دونوں صوبوں میں انتخابات اور منتخب حکومتوں کے قیام تک قائم رہیں گی. 90 روز کی مدت گزرنے کے باوجود دونوں نگران حکومتیں اپنا کام جاری رکھیں گی.

معروف آئینی ماہرین نے نیا دور فرائیڈے ٹائمز کو بتایا ہے کہ اب یہ ایک آئینی کنونشن بن چکا ہے کہ نگران حکومت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ ایک منتخب حکومت اقتدار سنبھال نہ لے۔

ماضی میں بھی نگران حکومتوں کی مدت میں توسیع کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ حاجی سیف اللہ کیس میں نگران حکومت کی مدت میں واضح طور پر  پی ایل ڈی 1981 ایس سی 166 میں 191 پر توسیع کی گئی۔ اسی طرح، جیسا کہ سی پی نمبر 05/2023  میں پاس کیے گئے آرڈر کے ذریعے کیا گیا ہےجس کے تحت انتخابات کی تاریخآگے بڑھا کر 14 مئی، 2023 تک لائی گئی۔

ایک سینئر آئینی ماہر نے مزید کہا کہ2013 ایس سی ایم آر 1205 کے پیرا گراف 15 میں یہ بتایا گیا ہ کہ عبوری مدت کے دوران ریاست کے معاملات چلانے کے لیے ایک نگران حکومت قائم کی جاتی ہےجو کہ ایک منتخب حکومت کے اقتدار میں واپسی تک قائم رہتی ہے۔

ان سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اور مشہور فقیہ نے کہا کہ نگران حکومت پوری عبوری مدت کے دوران اور منتخب حکومت کے اقتدار میں واپس آنے تک اپنے عہدے پر قائم رہتی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی شریک چیئرمین بے نظیر بھٹو  کا قتل ہوا تب نگران سیٹ اپ کو اس وقت تک کام کرنے کی اجازت دی گئی جب تک کہ ایک منتخب حکومت قائم نہ ہو جائے۔

ایک سینئر قانون دان  نے یہ بھی کہا کہ یہ اب ایک آئینی کنونشن بن گیا ہے کہ نگران حکومت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ ایک منتخب حکومت اقتدار نہیں سنبھال لیتی۔

پی ایل ڈی 1991 لاہور 78 میں نمبر 109 میں کہا گیا ہے کہ تحلیل کے بعد نگران حکومت ایوان کے سامنے جوابدہ نہیں رہتی لیکن اس کے باوجود اسے مستقل کابینہ کی تشکیل تک اپنے فرائض پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے ہوتے ہیں۔

سینئر وکیل نے کہا کہ اسی فیصلے میں صفحہ 170 پر ایک فل بنچ نے کہا ہے کہ نگران وزیر اعظم (وزیر اعلیٰ کو پڑھیں) کی مدت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ انتخابات کے بعد ایک نئی اسمبلی باقاعدہ طور پر منتخب وزیر اعظم کو شامل نہیں کر لیتی ۔

انہوں نے کہا کہ 1994 میں PLC (CS) 215 میں پیراگراف 5 میں کہا گیا ہے کہ نگران حکومت کسی بھی دوسری حکومت کی طرح اچھی ہے اور اسے نو منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک کام کرنا ہے۔

یہاں تک کہ دوسری صورت میں، نگران حکومت کا تسلسل کسی بھی واضح آئینی شق کے خلاف نہیں ہے (یہ صرف آرٹیکل 224-A میں مضمر ہے)۔ یہاں، آئین میں لازمی اور ہدایتی دفعات کے درمیان فرق کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

کسی بھی پیمانہ سے پرکھا جائے اور کسی بھی معیار سے ماپا جائے، گورننس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نگران حکومت صرف اس وقت گھر جاتی ہے جب اقتدار منتخب حکومت کو اس کی تشکیل کے بعد واپس کر دیا جاتا ہے اور اس صورت میں مدت میں کوئی توسیع نہیں کی جاتی۔

اس سلسلے میں باقی دنیا میں بھی مثالیں موجود ہیں۔ 2010 میں بیلجیئم میں پارلیمنٹ ختم ہونے کے نتیجے میں نگران حکومت 500 دن تک برقرار رہی۔

1996 میں، ہندوستان میں، نگران حکومت کی مدت قانون سازی کے ذریعے اس وقت تک بڑھا دی گئی جب تک کہ نئی حکومت قائم نہ ہو سکے۔

2010 میں، آسٹریلیا میں، جہاں نگران حکومت کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا، معلق پارلیمنٹ کے نتیجے میں نگران حکومت کی مدت کو اس وقت تک بڑھا دیا گیا جب تک کہ نئی حکومت قائم نہ ہو سکے۔ لیکن اس کی منظوری تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کی گئی تھی۔

اسی طرح، 2019 میں تھائی لینڈ میں نگران حکومت نے بغیر کسی توسیع کے مقررہ مدت سے زیادہ کام کیا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما فواد چوہدری اور دیگر ہم خیال وکلا قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ نگران حکومت کی مدت 22 اپریل کو ختم ہو جائے گی اور وہ سید محسن رضا نقوی کی زیر قیادت  نگران پنجاب حکومت کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رہے ہیں۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ نگران حکومت کی مدت 90 دن مکمل ہونے پر آئین خاموش ہے۔ اس حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہوسکتی۔ پنجاب میں 23 اپریل سے ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے صدر عارف علوی کو خط لکھا جس میں  کہا گیا کہ 90 روز گزر جانے کے بعد نگران حکومتوں کو قانونی نہیں کہا جاسکتا۔ آئینی مدت کے بعد نگران حکومتوں کی حیثیت ”غاصبوں“ کی سی ہے جنہیں فوراً ہٹایا جانا چاہیے۔ صدرِ مملکت آئین سے سنگین انحراف کا نوٹس لیتے ہوئے مشاورتی دائرہ اختیار کے تحت معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوائیں۔
مزیدخبریں