ماہر معاشیات یوسف نذر نے کہا کہ پاکستان ہی واحد ایسا ملک ہے جہاں آئینی پٹیشنز پہ مختصر آرڈر جاری ہوتے ہیں اور تفصیلی فیصلے نہیں جاری کیے جاتے۔ شارٹ آرڈر بذات خود قانونی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ سپریم کورٹ کے 14 اپریل کے فیصلے میں سب سے بڑا نقص ہی یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی تفصیلی وجوہات ہی جاری نہیں کیں۔ اسی وجہ سے اس فیصلے کو بددیانتی پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ فنڈز کے معاملے میں سٹیٹ بنک کو براہ راست ہدایت جاری کرنا اچھی روایت نہیں، سپریم کورٹ نے یہ غلط نظیر قائم کی ہے۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی لڑائی ہے اور اس کا آغاز 2016 سے ہوا تھا۔ اس کو سپریم کورٹ نہیں ختم کر سکتی، اس کا حل سیاسی ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا حکومت کا اگلے سال بھی الیکشن کروانے کا کوئی ارادہ ہے اور یہ بہت غیر جمہوری رویہ ہے۔ 2007 کی طرح اسٹیبلشمنٹ اس وقت بھی کنفیوژڈ ہے کہ کس گھوڑے پر پیسے لگائے، معاشی حالات اتنے خراب نہ ہوتے تو شاید وہ خود آ چکے ہوتے۔ پارلیمنٹ کی اپنی حیثیت بھی سوالیہ ہے کیونکہ سبھی کہہ چکے ہیں کہ 2018 کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔
ماہر قانون احمد حسن شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ ربرسٹمپ ہے اور جیسا ہم نے کہہ دیا ہے پارلیمنٹ چپ چاپ اس پر عمل کرے تو یہ رویہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کووڈ 19 کے دنوں میں دنیا بھر کے 60 سے زیادہ ملکوں میں الیکشن ہو رہے تھے اور بہت سے ملکوں میں الیکشن مقررہ مدت سے ملتوی ہوئے۔ 90 دن میں انتخابات کروانے والا معاملہ absolute نہیں ہے، قابل ترجیح ہے کہ اس عرصے کے اندر کروائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نیا دائرہ اختیار بنا رہا ہے تو پھر پارلیمنٹ بھی یہی کرے گی۔ اس صورت حال میں ہمیں پیچھے ہٹ کر صفر سے شروع کرکے معاملات کو دوبارہ سے دیکھنا ہو گا۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی سسٹم کے بریک ڈاؤن کا ثبوت ہے اور بریک ڈاؤن کی صورت میں انتخابات ملتوی کروانے کا اصول درست معلوم ہوتا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ میں لامتناہی عرصے کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے حق میں نہیں ہوں، لیکن دو صوبوں میں جلدی انتخابات کروا کر آپ سسٹم میں بگاڑ پیدا کر دیں گے اور اس سے وفاق کو شدید خطرہ درپیش ہو جائے گا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر پیش کیا جاتا ہے۔