پچھلے دنوں ان کی تحریروں اور گفتگوؤں پر طبقاتی تعصب کا الزام لگا۔ یہ بہت پریشان ہوئے۔ سوشل میڈیا پر (جس سے وہ لازمًا دور رہتے ہیں) ان کی وضاحت بھی نشر ہوئی، جس کی چنداں ضرور ت نہ تھی۔ ان کے چاہنے والوں کو بہت دکھ ہوا۔ پورے سندھ سے اہلِ فکر نے ان سے رابطہ کیا، ہمدردی ظاہر کی اور ہمارے معاشرے میں در آنے والی عدم برداشت اور پست ذوقی پر ماتم کیا۔
انہی دنوں ایک شام ہم بھی ا ن کے ہاں حاضر ہوئے۔ بہت افسردہ تھے۔ کہنے لگے: مگر اب ہم سے کوئی مزید ہجرت نہ ہوگی۔ اگر یہ پیغمبروں کی سنّت تھی تو ہم نے ایک دفعہ ادا کر رکھی ہے۔ سو ہم یہیں رہیں گے اسی زمین پر۔۔۔ موقع کی گھمبیرتا کو بدلنے کی خاطر میں نے کہا۔ "خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ آپ پر یہ الزام تراشی جائز ہے اور درست بھی ہے۔ خود ہم نے آپ کو اچھی صورت، تیکھے لفظ اور سریلے گانے کے حق میں بہت متعصب پایا ہے اور آپ اپنے تعصب کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور اس عمل میں آپ کا سکوت کسی بلیغ اظہار سے کم نہیں ہوتا۔۔۔"
انور مقصود اپنے حیدرآباد دکن سے بھی ویسے ہی 'مزاخ' کرتے ہیں جیسے کسی اور سے
https://www.youtube.com/watch?v=ix8_qbTLoL4
اے۔ ایم روایت کے آدمی ہیں۔ ان کے حلقے میں جگہ پانا آسان نہیں۔ لوگ ان میں وہ والہانہ پن تلاش کریں جو مثلاً فاطمہ ثریا بجیا کا خاصہ تھا، تو مایوس ہوں گے۔ ظاہر ہے اگر کسی خانوادے میں دسیوں باکمال افراد ہوں تو یقیناً ایک جیسے تو نہ ہوں گے۔ اے۔ایم کا رویہ اس نسل کوضرور سمجھ آتا ہے، جنہیں بتایا گیا تھا کہ حفظ مراتب بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ اس پر مجھے اپنے بزرگ استاد اور پیشوا ڈاکٹر ابو الخیر کشفی یاد آ رہے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کا ذکر تھا۔ ان سے ہونے والی ایک ملاقات کا احوال یوں لکھتے ہیں میرے والد کو گلے لگایا، چچا سے ہاتھ ملایا اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔۔۔ فی زمانہ اے۔ایم اس روایت کے آخری افراد میں سے ہیں۔
ان سے ہماری پہلی ملاقات یادگار تھی۔ میری نصف بہتر ملاحت تو خیر ان کے گھر کی فرد ہیں۔ مجھے البتہ اس وقت تک بیٹھنے کو نہیں کہا جب تک باگیشری کی آروہی/اوروہی نہیں پوچھ لی۔ اس کے بعد البتہ محبتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سوچ ہے آپ کی! (معاصر اردو محاورے میں داخل ہو جانے والی یہ تازہ ترین بدعت ہے)۔ ان سے ملنا ایک سادہ عمل ہے، جس میں کوئی تکلف اور پیچیدگی نہیں ہوتی۔ بس صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ فون کرنا ہے، خیریت اور مصروفیت دریافت کرنی ہے۔ اور شام آٹھ بجے کا وقت طے ہو جانا ہے۔
ہمیں ان کی صحبت میں دو طرح کی شخصیتوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ایک وہ جو زندہ ہیں اور ان کے چاہنے والے ہیں۔ اے۔ایم اس بات کا خوب خیال رکھتے ہیں کہ کس کو کس سے ملوانا ہے، یا پھر کبھی نہیں ملوانا۔ اور یہ ہجوم تو بالکل پسند نہیں کرتے۔ انگریزی قانون کے مطابق تین افراد کو صحبت اور اس سے زیادہ کو ہجوم کہتے ہیں۔ یہ ہم جیسوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس کیفیت کے لئے کلاسیکی پنجابی کا ایک مصرعہ ہے:
ایہہ دیوے کرتار تے فیرکی بولنا (اگر خدا کی طرف سے اتنا کچھ میسر ہو جائے، تو شکایت کس بات کی!)
دوسری قسم کی شخصیات اردو زبان و ادب کے کلاسیکی شاعر، ادیب اور دیگر اہل فکر ہیں۔ ان سے ان کی خیالی ملاقاتیں اور مکالمے۔۔۔ اب دنیا بھر میں اردو زبان بولنے اور سمجھنے والے ان کے منتظر رہتے ہیں۔
خوف آتا ہے کہ جب کچھ عرصے بعد کتاب نام کی چیز اس معاشرے سے معدوم ہو چکی ہوگی تو نوجوان نسل اردو زبان اور اپنی تاریخ و معاشرت کو کس آئینے سے دیکھے گی۔۔۔ تب یقیناً جناب ضیاء محئ الدین کی جانب سے کیے گئے ادبی انتخاب اور'پڑھنت' کے ساتھ ساتھ اے۔ایم کی خیالی ملاقاتیں، مراسلے اور مکالمے اس معاملے میں اہم ترین ذرائع ہوں گے۔
اے۔ ایم ایک ماہر جوہری کی طرح اپنی پسند یدہ شخصیت کو پر کھتے ہیں۔ جملے، اشعار اور ذاتی کوائف پر مبنی ایک مکالمہ یا مراسلہ تخلیق کرتے ہیں تو تعارف اور تفہیم کے در کھلتے ہیں۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں عجیب یقینی کیفیت ہوتی ہے اور یہ اپنے مخاطب کو بھی اسی کیفیت سے دو چار کرتے ہیں۔
لے آؤں ایک پل میں، گزشتہ کو حال میں۔۔۔ والا معاملہ ہوتا ہے۔
ان کے ہاں کبھی کبھی پوری شام بغیر کوئی بات کیے گزر جاتی ہے۔ سماع اور سماعت البتہ لازم ہوتا ہے۔ کبھی باگیشری ہے تو کبھی مالکونس۔ کبھی استاد امیر خان ہیں اور کبھی کشوری امونکر۔۔۔ یہ اکیلے کبھی نہیں ہوتے۔ انسان ہوں نہ ہوں، شخصیات ضرور ہوتی ہیں۔۔۔ کبھی ایک نغمے کی صورت، کبھی کسی کتاب اور کبھی ایک نامکمل تصویرکی صورت۔
ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران میرے منہ سے ایک جملہ سرزد ہوا کہ۔۔۔ فاطمہ ثریا بجیا گویا آپ کے خانوادے کی نظیر اکبر آبادی تھیں۔۔۔ اے۔ایم خوش ہوئے اور کہنے لگے "ارے بھئی کیا یاد دلایا تم نے۔۔۔ وہ بھی آئے تھے پچھلے دنوں۔۔۔ کہنے لگے، آگرے سے آیا ہوں، ذرا جلدی میں ہوں۔"
میں نے کہا، لیکن پھر بھی کچھ شاعری ہوجائے۔ کہنے لگے، اچھا۔۔۔ تو سنو!
اب رات نہیں، اب صبح ہوئی، جوں موم پگھل کر ڈھل نکلو
کیوں ناحق دھوپ چڑھاتے ہو،بس ٹھنڈے ٹھنڈے چل نکلو
میں نے غزل کی فرمائش کی تو بولے:
ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے، رہے، نہ رہے
مثرہ پہ آن کے ٹک جم رہے، رہے، نہ رہے
ملو جو ہم سے، تو مل لو، کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثال قطر ہ شبنم، رہے، رہے، نہ رہے
پھر کہنے لگے، میرا کوئی شعر تم بھی تو سناؤ۔ میں نے کہا وہ ایک شعر جو آپ نے پاکستان پر لکھا۔۔۔ کہنے لگے، کیا مطلب؟ تو میں نے شعر پیش کیا:
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی، اور مال دوستوں کا
اسی طرح ایک ملاقات بڑے غلام علی خان سے بھی ہوئی۔ کہنے لگے، میرا نام غلام علی خان ہے۔۔۔ میں بولا، علی کا غلام تو میں بھی ہوں، تشریف لائیے۔۔۔ کہنے لگے، بھائی فیاض خان نے کہا تھا کہ کراچی جاؤ تو انور سے ضرور ملنا۔ اور میرے بیٹے منور علی خان سے تو تمہاری دوستی بھی تھی۔ کون سے راگ پسند کرتے ہو؟ میں نے کہا: جے جے ونتی، باگیشری، جونپوری، کلاوتی، سوہنی۔ میری بات کاٹتے ہوئے بولے: مگر یہ تو ساری راگنیا ں ہیں، کچھ راگ بھی تو کہو۔
میں نے پوچھا، خان صاحب، وہاں آپ کے ساتھ کون کون رہتا ہے؟ بولے، روشن آرا بیگم تو بالکل میرے برابر میں ہیں۔ اختری بائی بھی پڑوس میں ہیں، پہلی منزل پر۔ مگر میں ان کو نہیں ملتا۔ باقی تمام بائیاں کسی اور طرف رہتی ہیں۔
میں نے کہا، خان صاحب۔ یہ آپ لوگوں کی زیادتی ہے۔ بائیوں کا بڑا حصہ ہے ہمارے سنگیت میں۔
کہنے لگے، ہم لوگ زمین پر بیٹھ کر گاتے ہیں۔ اور یہ پہلی منزل والیوں کے بس کی بات نہیں۔
اچھا تم بتاؤ، پاکستان میں گانے کی کیا صورت ہے آج کل؟ میں نے کہا دھر پد پیٹ سے نکلتا ہے اور خیال گلے سے۔ ہمارے ہاں پیٹ خالی ہے اور گلا کٹ چکا ہے۔ بڑے غلام علی خان اس پر افسردہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
اے۔ ایم کی باتیں جاری ہیں، تفصیل طولانی ہے۔ پیش ہوگی بشرطِ زندگانی! اجمال اس کا یہ ہے کہ یہ ایک مردِ ہزار شیوہ ہیں۔
بقول غالبؔ دبیرم، شاعرم، رندم، ندیمم، شیوہ ہادارم
اور اب آخری بات۔ کسب کمال یوں تو خدا کی دین ہوتا ہے، مگر اس کی اپنی وراثت بھی ہوتی ہے۔ اس خانوادے کے ایک جونیئر فرد میکائیل ماشاء اللہ اس چھوٹی عمر میں نہایت عمدہ مصوری کرتے ہیں۔ اور اپنے دادا کے ہونہار جانشین ہیں۔ وہی مصرعہ ایک دفعہ پھر لازم آتا ہے: ایہہ دیوے کرتار، تے فیر کی بولنا؟