اس سب کے بعد ردِعمل میں کئی اداکاروں نے ماہرہ خان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور فردوس جمال کی کہی ہوئی باتوں کی سختی سے مذمت کی۔ بات یہاں نہیں رکی۔ ہم ٹی وی کی روحِ رواں مومنہ درید نے تو فردوس جمال کے ہم ٹی وی سے منسلک تمام پراجیکٹس بھی کینسل کر دئیے۔
فردوس جمال نے جو کہا وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بہت ساری باتیں اور خیالات جن کا ہم اظہار کرتے ہیں وہ ہمارے نہیں ہوتے بلکہ برسوں سے نسل در نسل سفر کر کے وہ ہمارے دماغ کا حصہ بن جاتے ہے۔ مثال کے طور پر جہیز، جس کو ہم لعنت کہتے ہیں اس کے باوجود ہم اپنی بہنوں کا جہیز بناتے بھی ہیں اور جب کسی اور کی بہن ہمارے گھر آئے تو اس سے بھی جہیز وصول کرتے ہیں۔
اگر آپ بڑا پن دکھائیں اور لڑکی والوں سے اسرار بھی کریں کہ آپ کو جہیز نہیں چاہئیے، تو اس اسرار پر وہ مزید اسرار کریں گے کہ آپ ان سے جہیز لے لیں۔ان کو یہ خوف ہوتا ہے کہ کل کو ہماری بیٹی کو طعنہ نہ ملے کہ یہ جہیز نہیں لائی تھی۔ ایسا کیوں ہے؟ کبھی سوچا آپ نے؟ کیونکہ نسل در نسل سے یہ سوچ اب ہمارے لاشعور کا حصہ بن چکی ہے۔
اسی طرح جو بات فردوس جمال نے کی وہ نہ غلط ہے نہ صحیح بلکہ معاشرے میں بہت سارے لوگوں کی سوچ کی عکّاس ہے۔ عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے، ایک بچے کی ماں بننے کے بعد عورت پہلے جیسی حسین نہیں رہتی، جو عورت آپ سے بے تکلفی سے بات کرے اس کا کردار مشکوک ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب وہ خیالات ہیں جو آپ کے اپنے نہیں بلکہ آپ کے DNA میں پہلے سے چسپاں ہیں۔ لہذا ماہرہ خان اور ان کے چاہنے والوں کو فردوس جمال کی اس بات کا کچھ اتنا زیادہ بھی برا نہیں منانا چاہیئے۔ انہوں نے ماہرہ خان پہ کوئی ذاتی حملہ نہیں کیا بلکہ محض اپنی اس رائے کا اظہار کیا ہے جو معاشرے میں پہلے سے موجود ہے۔
نہ ہی انہوں نے ماہرہ خان کا تذکرہ خود سے شروع کیا تھا، ہوا کچھ یوں کہ ان کو شو کے میزبان فیصل قریشی نے ماہرہ خان کی تصویر دکھائی اور ان سے ان کے خیالات کے بارے میں پوچھا۔ فردوس جمال کے جواب سے قبل فیصل قریشی نے کہا کہ اس سال ماہرہ خان کی ایک فلم بھی ہٹ نہیں ہوئی اور ان کی خواہش ہے کہ آئندہ آنے والی فلمیں ہٹ ہوں۔ اس کے بعد فردوس جمال نے کہا کہ ویسے میری ذاتی رائے میں ماہرہ ایک اچھی ماڈل تو ہیں لیکن کوئی خاص اداکارہ نہیں ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ فردوس جمال کا ارادہ ماہرہ خان کی تضحیک کرنا نہیں تھا بلکہ بات سے بات نکلی اور بس! ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں ان کے اس عمل کی تائید کر رہا ہوں۔
میں ذاتی طور پر ماہرہ خان کو بہت پسند کرتا ہوں اور مجھے اس بات پہ فخر ہے کہ وہ ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ انتہائی معتدل شخصیت کی مالک، ہیروئین اور انتہائی حسین ہونے کے باوجود شرمیلا انداز، اور پڑی لکھی ہیروئین کا رجحان انڈسٹری میں متعارف کرانے والی ماہرہ خان کا کردار محض ایک اداکارہ اور ماڈل سے دراز ہے۔ وہ پاکستان کی پہلی ماڈل ہیں جن کو دنیا کی سب سے بڑی کاسمٹک کمپنی L’Oréal کا کانٹریکٹ ملا۔ اور وہ پہلی پاکستانی ماڈل ہیں جنہوں نے عالمی شہرت یافتہ Cannes کینس فلم فیسٹول میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ شو کے میزبان فیصل قریشی کا یہ کہنا تو ٹھیک ہے کہ ماہرہ خان کی فلمیں ہٹ نہیں ہو رہیں لیکن اس کی وجہ ماہرہ خان کی اداکاری نہیں بلکہ ہماری فلم انڈسٹری کا بڑے عرصے سے زوال کا شکار ہونا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اب بھی انڈیا کی فلمیں دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے یا پھر ہالی ووڈ کو۔
کوئی بھی ہیروئین کبھی یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اب وہ پہلے جیسی خوبرو نہیں رہی لیکن انہوں نے خود اب سے چند ماہ پہلے مشہور سوشل میڈیا کی ایپ انسٹاگرام Instagram پہ اپنی چند تصاویر شیئر کیں اور نیچے جو انگریزی میں لکھا اس کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
"میں نے ان تصویروں کو دیکھا اور یہ سوچا کہ اُف خدایا میں تو پہلے کے مقابلے میں معمر لگ رہی ہوں، اور میں لگتی ہوں معمر اب۔ میں محسوس کر سکتی ہوں، اپنی ہڈیوں میں اپنے چہرے پہ۔ میرے بالوں میں سفید لڑیاں۔ اور یہ سب مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن اتنا اچھا نہیں کہ جتنا مجھے اپنے اندر کا بچپن پسند ہے اور میں وہاں کی طرف رواں ہوں"
ایک اتنی بڑی ماڈل انتہائی حسین ہونے کہ باوجود خود ہی اقرار کر رہی ہے کہ اب وہ معمر نظر آتی ہے پہلے کے مقابلے میں، اس سے زیادہ بڑا پن کیا ہوگا۔ کیا اتنی انکساری مجھ میں اور آپ میں ہوگی اپنے ظہور کو لے کر؟ ہم تو ماڈل بھی نہیں ہیں۔ ماہرہ خان، ہمایوں سعید، شعیب منصور اور ان جیسے کئی لاتعداد اداکار و ہدایتکار کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنی محنت سے اس انڈسٹری کو دوبارہ سے زندہ کیا۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ فردوس جمال کی رائے آج کے دور میں کس حد تک درست ہے۔ اب ہیرو اور ہیروئین دونوں اپنی صحت کا انتہائی زیادہ خیال رکھتے ہیں اور عموماً اپنی عمر سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ ہالی ووڈ کی اداکارہ سینڈرہ بلّاک Sandra Bullock نے آج سے دس سال پہلے ایک فلم The Blind Side میں ہیروئین کا کردار کیا۔ اس وقت ان کی عمر 45 سال تھی۔ نہ صرف یہ کہ ان کی فلم ہٹ ہوئی بلکہ سینڈرہ بلّاک نے بہترین اداکارہ کا اکیڈمی ایوارڈ بھی جیتا۔ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انہوں نے حال میں بیٹھے فنکاروں سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا کیریئر ابھی ختم نہیں ہوا اور حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اسی طرح ماہرہ خان بھی ہیں جن کی فلمیں بےشک ہٹ نہ ہوئی ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کے وہ ہیروئین بننے کے بالکل قابل ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ آپ پریانکا چوپڑہ کو دیکھ لیں۔ ان کا اصل کیریئر شروع ہی 30 سال کی عمر میں ہوا جب انہوں نے ایک امریکی ٹی وی سیریز Quantico میں ہیرویئن کا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر کے ہالی ووڈ میں اپنا لوہا منوایا۔
آپ ان کو چھوڑیں، لاکھوں دلوں کی جان سہیل احمد صاحب جو عزیزی کا کردار بھی کرتے ہیں ماشااللہ انتہائی فٹ ہیں۔ اس کا اندازہ آپ ان کی شخصیت سے تو لگا ہی سکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے گزشتہ پی۔ایس۔ایل میں میچ کے دوران ایک کمپنی کے اشتہار کے لئے تیز دوڑ یعنیsprint لگائی اور وقت سے پہلے جگہ پر پہنچ کر چیلنج پورا کیا اور اپنے نمایاں سٹائل میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کیمرے میں دیکھ کر انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ جیسے کہ رہے ہوں کہ میں فٹ ہوں۔
یہ سب مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ کسی بھی کام کو کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اور مزید یہ کہ جیسے ریکارڈ ٹوٹتے رہتے ہیں اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے فلم انڈسٹری میں صرف نوجوان لڑکا لڑکی کو ہیرو یا ہیرویئن بننے کا موقع ملتا تھا لیکن اب رجحان بدل چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کیسے میرے وہ عزیز رشتہ دار جو تبلیغی جماعت سے متاثر تھے، مولانا طارق جمیل صاحب کے حوالے سے یہ کہتے تھکتے نہ تھے کہ انہیں کیمرہ اور تصویر سخت ناپسند ہیں۔ آج دیکھیں ان کو براہ راست کم اور کیمرے پہ زیادہ دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ اس میں مولانا کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ محض رجحان کی تبدیلی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ فردوس جمال کو ایسا کہنا چاہیے تھا یا نہیں ہماری عوام میں عمومی طور پر یہ رجحان جنم لے چکا ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری رائے سے اختلاف کرے تو ہمیں اس سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ کیا کسی اداکارہ کو پسند کرنا یہ نہ کرنا اتنی بڑی بات ہے کہ آپ کو نوکری سے ہی فارغ کر دیا جائے؟
فردوس جمال بہت بڑے اداکار ہیں، ان سے اس طرح کا رویّہ رکھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ان کی بات سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خاکسار نے بھی یہ گستاخی کی ہے لیکن ہمیں ان جیسے عظیم فنکار کی ایک تو ویسے بھی قدر کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ بھی ہر کسی کی رائے کا احترام کرنا احسن ترین عمل ہے۔ لہذا اس مسئلے کو رائی کا پہاڑ بنانے کے بجائے شائستگی سے ختم کر دینا چاہیے اور مومنہ دروید کو دل بڑا کر کے فردوس جمال کے ہم ٹی وی سے منسلک تمام معاہدے بھی بہال کر دینے چاہیے۔
مشہور امریکی صدر جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ اگر آزادی رائے کو سلب کر لیا جائے تو ہماری حالت ان بھیڑوں جیسی ہو گی جن کو خاموشی سے قربانی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔
اب تقریباً سارے صحافی اور ٹی وی اینکر پروگرام کرنے کے علاوہ یوٹیوب پر الگ سے بھی پروگرام کرتے ہیں۔ آج سے پہلے ان کو ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن اب ان کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آپ ان کے ٹی وی اور یوٹیوب کے پروگرام میں واضح فرق پائیں گے۔ اس سے محض یہ اخذ نہ کریں کہ آپ اداروں کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر سکتے بلکہ یہ کہ آپ کسی بھی چیز، جگہ یا شخص کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کر سکتے، کیا اسی لئے ہم آزاد ہوئے تھے؟
ہماری برداشت بحیثیتِ مجموعی قوم ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم پٹواری اور یوتھیا، ملک دشمن اور ملک دوست، غدّار اور محبّ وطن، فوج کا حامی اور فوج کے خلاف، امن پسند دہشت گرد اور جارحیت پسند دہشت گرد اور ان جیسے کئی تفرقوں میں بٹ چکے ہیں، ایسا بٹوارہ کبھی نہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنی پسند نا پسند کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے خیالات، پسند و ناپسند کو اس حد تک انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے وجود کا حصہ بنا لیا ہے کہ ہم بدگمانی، الزام تراشی اور نفرت جیسی زہریلی کیفیات کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی ادنیٰ سی مثال وہ خفگان ہے جو موضوعِ بحث میں عیاں ہے۔ اس کی اعلیٰ مثالیں تو ہم روز دیکھتے ہیں۔ ہمیں جوڑنے والی رسّی کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کچھ ایسا سا سما ہے۔
کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
تیرا شہر کتنا عجیب ہے
وہ جو عشق تھا وہ جنون تھا
یہ جو ہجر ہے یہ نصیب ہے
میں کسے کہوں میرے ساتھ چل
یہاں سب کے سر پہ صلیب ہے
یہاں کس کا چہرہ پڑھا کروں
یہاں کون اتنا قریب ہے
تجھے دیکھ کر میں ہوں سوچتا
تو حبیب ہے یا رقیب ہے
شاعر: رانا ساحری
بقلم: ازراہ تفنن