علاقائی حوالے سے سب سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب نے صرف اتنا کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تحمل سے حل کیا جائے اور وہ اس حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ جبکہ کویت، قطر، بحرین اور عمان جیسے دیگر خلیجی ممالک نے ابھی تک کوئی ایک بھی بیان جاری نہیں کی۔
https://www.youtube.com/watch?v=ZJE7H-l9ysw
متحدہ عرب امارات نے تو ان ممالک سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے بظاہر بھارت کا ساتھ دیا۔ متحدہ عرب امارات کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سفیر احمد البنا کا مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ''کشمیر میں تبدیلی سے سماجی انصاف اور سکیورٹی میں بہتری پیدا ہو گی۔‘‘
سعودی عرب نے ابھی تک کمشیر میں فوجی کرفیو یا کمیونیکیشن بلیک آوٹ کے حوالے سے کوئی براہ راست بیان جاری نہیں کیا۔ صرف یہ کہا گیا ہے، ''سعودی عرب موجودہ صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اس کا پرامن حل چاہتا ہے۔
خلیجی ممالک کی خاموشی کی ایک وجہ ان ممالک میں کام کرنے والے بھارتی شہری بھی ہیں۔ ان ممالک میں سات ملین سے زیادہ بھارتی شہری ملازمت کرتے ہیں، جن میں ڈاکٹر، انجنئیرز، اساتذہ، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بھارتی متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں یو اے ای اور بھارت کے درمیان 50 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی اور اس طرح بھارت اس مسلمان ملک کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=luNd4d-mYh8
متحدہ عرب امارات میں بھارت کی سرمایہ کاری تقریبا 55 ارب ڈالر ہے اور دبئی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری بھی بھارتی شہریوں کی ہی ہے۔ دبئی کا عالمی پورٹ آپریٹر ادارہ ڈی پی ورلڈ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں لاجسٹک حب کا قیام بھی چاہتا ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ 'گلف-انڈین تعلقات‘ کے ماہر حسن الحسن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کشمیر میں ویسے تو سعودی عرب، ترکی اور ایران تینوں ہی اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن صرف ترکی ہی ابھی تک کشمیریوں کی کھل کر حمایت کرتا آیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=su3aNuPtaEI
ترکی کی بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم سات ارب ڈالر ہے لیکن اس نے اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ عمران خان اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی گئی ہے۔
ایران نے اپنے ملک میں صرف ایک علامتی سے احتجاج کی اجازت دی۔ تہران میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں تقریبا ساٹھ طالب علم شریک تھے۔
ایران کے برعکس سعودی عرب میں تقریبا ستائیس لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں اور سعودی عرب عراق کے بعد بھارت کو خام تیل سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔