سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی ہے یہاں سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے ۔نائن الیون کے واقعے سے لیکر اب تک لاکھوں افراد شہید اور بے گھر ہوگئے ہیں ۔اور دربدر پھرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔بھوک اور غربت کا عفریت ہے. کوئی انفراسٹرکچر نہیں ۔ہر جانب بیس سال میں تباہی کی ہاہا کار ہی مچی ہوئی تھی ۔تو اب گزشتہ کئی مہینوں سے سب کچھ ٹھیک ہوگیا ۔امریکہ کیا جمہوریت لا چکا جو کہ جمہوریت لانے کا دعویدار ہے ۔کیا انہوں نے حکومت قائم کرلی؟ کیا انسانی حقوق کی تنظمیں اور این جی اوز اب افغانستان میں کام کریں گی؟مجھے تو یہ نہیں لگتا کہ اب وہاں کچھ کام ہوجائے ۔ابھی تک تو مجاہدین کے بیانات اچھے آرہے ہیں جس طرح انہوں نے کابل فتح کیا جس میں کوئی قتل وغارت نہیں ہوئی اور اشرف غنی سمیت وہ لوگ جو امریکہ کے حمایتی تھے اُن کو جانے کا راستہ دیا ۔جو لوگ کل سی ون تھرٹی میں گئے تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جس طرح حامی ہیں اسی طرح طالبان کے مخالفین بھی ہیں جنہوں نے ظلم وبربریت دیکھی ہے ۔ہمارے وطن عزیز میں وہ پاکستانی کبھی بھی طالبان کی حمایت نہیں کرے گا جنہوں نے خودکش حملے دیکھے ہیں جنہوں نے مساجد، بازاروں میں سکولوں میں یونیورسٹیوں میں بم دھماکے دیکھے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں جوان لاشے اٹھائے ہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی بیٹی نہ پڑھے اٌن پر سختیاں کی جائیں. لیکن پھر بھی وہ طالبان کی حمایت کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز کابل پر قابض ہونے کے بعد طالبان کی جانب سے مختلف ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جس میں پہلی ویڈیو میں طالبان کا کوئی رہنما ایک ہسپتال میں خواتین ڈاکٹر کے ساتھ گروپ کی شکل میں بیٹھ کر انہیں سمجھا رہا ہے کہ آپ لوگ ہسپتال میں اپنا کام جاری رکھیں ۔جس طرح پہلے کام کیا جاتا تھا۔کیونکہ یہ آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے اور ہم آپ لوگوں کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔حکومت کا آپ لوگوں پر بہت خرچہ ہوا ہے تم لوگ قیمتی اثاثہ ہوا۔ دوسری ویڈیو میں تبدیلی شیعہ کے حوالے سے آگئی ہے جس میں وہ افغانستان کے اہل تشیع کو جان و مال اور اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم داعش کے طرح اہل تشیع کی مخالف نہیں۔افغانستان میں کہیں اہل تشیع کو تکلیف پہنچی تو امارت اسلامی ایکشن لے گی۔ اس طرح تمام سرکاری ملازمین کو بھی کام جاری رکھنے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں پر واپس آکر کام شروع کردیں ۔کسی کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔اس کے ساتھ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ہم نے کئی مہنیوں سے ان لوگوں کو بھی دیکھا اور سنا ہے جو پاکستان میں اس نظام کو کبھی بھی لانے کے خواہش مند نہیں ہیں مگر وہ پڑوسی ملک میں اس نظام کو لانے پر خوشی منارہے ہیں ۔ہمارے بہت سے ساتھی اس زعم میں مبتلا ہیں کہ افغانستان میں نئی حکومت یعنی طالبان کی حکومت کے ساتھ پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ پڑوس میں لگنے والی آگ کی تپش اپنے گھر میں محسوس ہوتی ہے۔ خواہ ہم نے گھر کی دیوار اونچی کی ہو ۔ہماری حکومت نے افغانستان کے تمام سرحدوں پر باڑ لگانے کا کام مکمل کردیا ہے صرف چترال کے کچھ گلیئشئر باقی بچتے ہیں جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ ملک افغانستان سے محفوظ ہوجائے گا جبکہ افغانی طالبان کا موقف بھی سامنےاچکا ہے کہ ہماری سر زمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگی مگر سوشل میڈیا پر جو زہر افشانی ہورہی ہے اُس سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے ۔ایران اور چین کے لئے کھودے گئے گڑھے میں ہمارا ملک بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان پہلے کی نسبت منظم اور سوشلائزڈ ہوگئے ہیں اب بات کو سمجھنے لگے ہیں ۔مجھے یہ سن کر ہنسی آتی ہے کہ وہ کس بنیاد پر یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ وہ بدل گئے ہیں ۔اب تو وہ اور خطرناک ہوگئے ہیں پہلے اسلحہ نہیں تھا ۔غیر تربیت یافتہ تھے، اب تو تربیت یافتہ افغانی فوجی بھی اُن کے ساتھ ہوگئے ہیں اب تو وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں کیونکہ طاقت اور اقتدار کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے اور یہ تو افغان حکومت ہے جہاں پر صرف لڑائیاں ہی ہوئی ہیں ۔اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔عالمی طاقتیں کون سا کھیل یہاں کھیلنے والی ہیں ۔چین، ایران، بھارت، روس امریکہ، برطانیہ، ترکی اور پاکستان کی کیا پوزیشن ہوتی ہے اور یہ کون سا گیم آن ہوگیا ہے..