ماضی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شہر کی مختلف آبادیوں میں واٹر بورڈ (ادارہ فراہمی آب) کا نلکہ ہوتا تھا اور مقررہ اوقات میں وہاں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا اور لوگ لائن بنا کر اپنی کوشش کے مطابق پانی جمع کرکے گھر لے جاتے تھے۔ یعنی پانی کا مسئلہ نیا نہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ شہر میں پانی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔
رواں سال میں مون سون کی بارشوں کے ساتھ جہاں شہر کراچی کے مکینوں کو شہری سیلاب کا سامنا رہا وہیں قدرے مختلف طرح کے نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑا جس میں سے ایک اہم ترین معاملہ یہ تھا کہ کافی لوگوں کے زیر زمین بور ( یعنی کنووؤں ) میں پانی کی فراہمی منقطع ہوگئی کیونکہ کیونکہ زمین کے نیچے سے پانی کھینچنے والی موٹر یا پمپ مٹی میں دھنس گیا تھا اور اسے واپس نکالنا ایک انتہائی دشوار گزار مرحلہ تھا اور کافی مقامات پر وہ پمپ واپس نکل بھی نہیں سکا اور لوگوں کو ایک نئی بورنگ کا خرچ برداشت کرنا پڑا کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔
ادارہ فراہمی و نکاسی آب کے 2017 میں عدالتی کمیشن میں جمع کرائے اعداوشمار کے مطابق شہر کی کل طلب کا تخمینہ 1,188 ملین گیلن یومیہ تھا جس کے مقابلے میں55 فیصد( 650 ملین گیلن) پانی یومیہ ترسیل کے لیے دستیاب بتایا گیا۔ جبکہ پانی کی طلب 54 گیلن فی شخص یومیہ بتائی گئی اسے جب لیٹر میں تبدیل کیا جائے تویہ 246 لیٹر فی شخص یومیہ بنتی ہے۔ پانی سے متعلق تحقیقات کو دیکھا جائے تو بھی کراچی کی کل پانی کی طلب 1,100 ملین گیلن یومیہ کے قریب ہے لیکن ادارہ فراہمی و نکاسی آب شہر کی ضرورت کا صرف نصف سے بھی کم ،یعنی قریبا41 فیصد(458 ملین گیلن) یومیہ پانی فراہم کرتا ہے اس لئے لوگ پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اکثر علاقوں میں لوگ پانی کے حصول کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں مگر پھر بھی ملنے والا پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا جبکہ شہر کی پانی کی طلب کی بقایا59 فیصد( 642 ملین گیلن ) یومیہ کی کمی شہر کے بہت سے علاقوں میں زیر زمین پانی یعنی بورنگ سے پوری کی جاتی ہے۔
یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شہر میں پانی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اور یہ پانی کا بحران کیونکر ہے؟ کراچی جس کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اس کے مکین آخر پانی کی کمی کا شکار کیوں ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ صبح کے اوقات میں یعنی اپنے روزگار پر جانے سے قبل اور سر شام اپنے روزگار سے لوٹتے ہی کراچی کے مکین پانی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ اگر دیگر گھریلو ضروریات کے لئے زیر زمین پانی کی سہولت ہو تب بھی پینے کے لئے پانی تو چاہیے ہی ہوتا ہے۔
پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شہر کے پانی کے ذرائع کیا ہیں اور ان سے کتنا پانی ملتا ہے؟ کراچی شہر کے دو ہی آبی ذرائع ہیں ایک دریائے سندھ ہے جس سے کل 646 ملین گیلن یومیہ پانی کراچی کیا کوٹہ ہے لیکن محدود صلاحیت کی وجہ سے ہم کینجھر جھیل میں کوٹے کا صرف 90 فیصد ( 580 ملین گیلن ) پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں مگر اس میں سے 5 فیصد (30 ملین گیلن) یومیہ پانی پورٹ قاسم اور اسٹیل مل کو چلا جاتا ہے اور چوری اوررساؤ کی وجہ سے 35 فیصد (192 ملین گیلن ) یومیہ پانی ضائع ہو جاتا ہے یوں کراچی کو دریائے سندھ سے کوٹے کا 55 فیصد ( صرف 358 ملین گیلن پانی ) یومیہ ملتا ہے جبکہ دوسرا ذریعہ حب ڈیم ہیے جہاں سے 100ملین گیلن پانی ملتا ہے اور یوں کراچی شہر کو مجموعی طور پر کل طلب کا 41 فیصد (458ملین گیلن ) پانی یومیہ فراہم کیا جاتا ہے اور شہر میں روزانہ کی بنیاد پر 59 فیصد( 642 ملین گیلن ) پانی کی کمی ہے۔
مقدار کراچی میں پانی کی طلب و رسد
ان دو ذرائع کے ساتھ اور بھی کئی طرح کی مشکلات ہیں جیسا کہ کینجھر جھیل جس میں دریائے سندھ سے پانی جمع ہوتا ہے وہ کراچی شہر سے تقریباً 130 کلومیٹر دور ہے اتنے فاصلے تک پانی پہنچانا ازخود ایک دشوار عمل ہے کینجھر جھیل سے یہ پانی ہالیجی پہنچتا ہے اور گھارو نہر سے ہوتا ہوا دھابیجی پمپنگ اسٹیشن تک آتا ہے اور اس کے بعد پانی شہر میں داخل ہوتا ہے اور دو حصوں میں بٹ جاتا ہے ایک شہر کا شمالی حصہ اور دوسرے سے شہر کے جنوبی حصے کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ حب ڈیم بارش کے پانی پر انحصار کرتا ہے تو جب بارشیں نہ ہوں یا کم ہوں تو اس کے ذریعے پانی کی فراہمی ممکن نہیں۔
ہم نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ شہر کی پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا جس کی ایک بڑی وجہ گنجانیت بھی ہے کہ ہم نے شہر میں بغیر منصوبہ بندی کے زمین کا استعمال بدل ڈالا اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے آخری منصوبہ 2005 میں پایہ تکمیل تک پہنچا تھا جسے کے تھری (K-III) کا نام دیا گیا اس کے بعد سے آج 2022 تک کراچی کے پانی کی فراہمی میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ 2005 کے بعد ایک منصوبہ کے فور (K-IV) کے نام سے سامنے آیا مگروہ بھی آج تک مکمل نہیں ہوسکا جبکہ پچھلے سترہ سالوں میں شہر کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور لوگ زیر زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوتے گئے۔ لیکن اب شہر کے زیادہ تر علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔ اکثر بالائی علاقوں میں بورنگ ممکن نہیں یا پھر زیرِ زمین پانی قابلِ استعمال نہیں ہےایسے علاقوں میں ہمیشہ ہی پانی کی قلت رہتی ہے۔
شہر تک پانی لانے کے بعد دوسرا بڑا مرحلہ اس پانی کی تقسیم کا ہے کیونکہ تمام مکینوں تک ایک مربوط نظام کے تحت پانی پہنچانا ازخو دشوار امر ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں پانی فراہم کرنے والا ادارہ ناکام ہے جب ہی ہم کہتے ہیں کہ کراچی میں پانی کا بحران صرف اس لئے نہیں کہ پیچھے سے پانی کی مقدار کی کمی ہے۔ مقدار میں کمی بھی ایک مسئلہ ہے مگر اس سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ شہر میں پانی کی تقسیم کا نظام غیر منصفانہ ہے کیونکہ جو 458ملین گیلن یومیہ پانی شہر کو فراہم کیا جاتا ہے اس کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہے اور اس غیر مساوی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے حکومت یا ادارہ؟ ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ 458 ملین گیلن یومیہ پانی کہاں جاتا ہے، کس کس کو ملتا ہے ا اس کا کیا ستعمال ہے اور کون اس پانی سے پیسے کمارہا ہے( جبکہ یہ پیسے فراہمی آب کے محکمے کو ملنا چا ہیئں ) دوسری جانب کون اس پانی کے لئے ترس رہا ہے یا پھر انتہائی مہنگے داموں یہ پانی خریدنے پر مجبور ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو شہر میں پانی کے بحران کے ساتھ ہی ذہن میں آتے ہیں۔
شہر میں پانی کی تقسیم کو سمجھنا بھی ایک مشکل عمل ہے کہ ادارہ فراہمی آب پانی کو آبادی کے اعتبار سے تقسیم کرتا ہے یا پھر آمدنی کے اعتبار سے؟ کیونکہ یہ تقسیم لوگوں کی ضرورت کے حساب سے تو نہیں بنائی گئی بلکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی ایسے علاقے جہاں زیادہ آمدنی والے لوگ رہتے ہیں وہاں ضرورت سے زیادہ پانی فراہم کیا جارہا ہے اور لوگ نہ صرف اس سے گھروں کے باغات کو پانی دے رہے ہیں بلکہ اکثر اپنی گاڑیاں بھی دھورہے ہوتے ہیں جس میں پانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہےجبکہ انھی پوش علاقوں سے ملحقہ گوٹھوں یا کچی آبادیوں کو پانی نہیں ملتا۔
دوسری جانب ان کچی آبادیوں میں بھی جو پانی خرید سکتا ہے وہ خرید لیتا ہے اور پانی کے ٹینکر والے سے لے کر گدھا گاڑی پر پانی بیچنے والے تک کا کاروبار چل رہا ہے مگر ٹینکر کے مقابلے میں اس کے پانی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور قیمت بہت زیادہ۔ یوں سب سے غریب طبقہ پانی کے لئے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پیسے خرچ کرتا ہے۔
شہر میں پانی ٹینکر کے ذریعے تو دستیاب ہے مگر نلکوں میں پانی ندرادد ہے یعنی جانتے بوجھتے ایسا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ لوگ ٹینکر سے پانی خریدنے پر مجبور ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہر میں بہت سے علاقوں میں پانی نہیں آتا یا اس کا کوئی وقت مقرر نہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو رات رات بھر جاگنا پڑتا ہے اکثر جگہوں پر یہ ذمہ داری خواتین کی ہے کہ وہ رات میں جاگ کر پانی آنے کا انتظار کریں کئی علاقوں میں 20 سے 25 دن کے بعد پانی آتا ہے مگر اس کا پریشر اور دورانیہ بہت کم ہوتا ہے جس کے باعث آخری سرے پر رہنے والوں کو پانی نہیں مل پاتا یا ملتا ہے تو اس کی مقدار بہت قلیل ہوتی ہے۔ پھر ایک جانب کئی آبادیاں ایسی بھی ہیں جہاں مہینوں کے بعد ایک گھنٹے کے لئے پانی آتا ہے جیسا کے اورنگی ٹاؤن کے اکثر علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں پچھلے 6 ماہ یا اس سے زیادہ عرصے سے پانی نہیں ملا ہے جو کیماڑی میں بھٹہ ولیج میں ہم نے دیکھا اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں لیکن پانی نہیں آتا اور لا محالہ انہیں ٹینکر کے ذریعے پانی خریدنا پڑتا ہے اور ہمیں شہر میں ٹینکرز کی بھر مار نظر آتی ہے جبکہ اسی شہر کراچی میں چند آبادیاں وہ ہیں جہاں 24 گھنٹے پانی دستیاب ہے یا کم از کم روزانہ کی بنیاد پر 6 سے 8 گھنٹے پانی میسر ہے، کراچی میں اس وقت کسی بھی علاقے کے لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ وہاں ضرورت کے عالمی معیار کے مطابق پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔
ایسی صورت حال میں لوگ مجبور ہیں کہ یا تو وہ ٹینکر سے پانی خریدیں اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کنواں کھدوا کر زیر زمین پانی سے استفادہ حاصل کریں کیونکہ بارش کا پانی نہ تو ہم ذخیرہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی اس سے زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کا کام لیتے ہیں یوں زیر زمین پانی کا معیار بھی گرتا جارہا ہے اور کافی حد تک وہ مضر صحت ہوگیا ہے مگر سرکاری پانی کی فراہمی بہتر نہ ہونے کے سبب زیر زمین پانی کے ذرائع پر لوگوں کا انحصار بڑھتا جارہا ہے لیکن زیر زمین پانی پانی کا معیار ایسا ہے کہ وہ پانی پینے اور کھانا پکانے کے لئے مناسب نہیں۔
صرف گھریلو استعمال (وہ بھی باتھ روم کے استعمال) میں کار آمد ہے اور پینے کے لئے انہیں علیحدہ سے پانی خریدنا پڑتا ہے مگر زیر زمین پانی کا تیزی سے نکالا جانا ازخود تباہی کی جانب ایک قدم ہے کیونکہ زیر زمین پانی کے زیادہ اخراج سے زمین میں خلا پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خلا وہاں موجود تعمیرات کےلئے انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری جانب مالی اعتبار سے یہ ایک اضافی بوجھ ہے اس وقت گھروں میں 45 میٹر (150 فٹ) کی گہرائی سےکھارا پانی حاصل کرنے کےلیے کم از کم 120,000روپے کی لاگت آتی ہے جس کا انتظام لوگ اپنی مد د آپ کے تحت کرتے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کراچی کو صرف آدھا پانی ملتا ہے اور اس میں سے بھی 30 سے 35 فیصد پانی یا تو چوری ہو جاتا ہےیا پھر خستہ حال اور پرانی پائپ لائنوں کی وجہ سے جو پانی رستا ہے تو وہاں جوہڑ بن جاتے ہیں یا اسے کسی اور طرح جمع کیا جاتا ہے اور پھر ٹینکر کے ذریعے بیچا جاتا ہے ان لائنوں کی مرمت نہیں کی جاتی تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ پانی کی چوری کے اور بھی طریقے ہیں جن میں ایک طریقہ یہ ہے کہ پانی کی بڑی لائن کے ساتھ ایک لائن ملائی جاتی ہے اور اس سے پانی حاصل کیا جاتا ہے اور یہ لائن پانی لے کر کسی ہا ئیڈرینٹ تک جاتی ہے اور وہاں سے ٹینکر بھر کر یہ پانی بیچا جاتا ہے تیسرا طریقہ پانی کے رساؤ سے ہی جڑا ہے کہ جب بڑی لائن میں رساؤ آجائے تو اس پانی کو زمین میں جذب ہونے دیا جاتا ہے اور قرب و جوار میں بورنگ کرکے اس پانی کو نکالا جاتا ہے اور بیچ دیا جاتا ہے لیاری ندی کے ساتھ کئی ایک بور موجود ہیں جہاں بڑے پمپ لگا کر پانی نکالا جارہا ہے پھر اسے صاف کرکے بیچ دیا جاتا ہے-
تقسیم ہند سے قبل شہر کراچی کو پانی کی فراہمی ڈملوٹی کے کنووں سے کی جاتی تھی جن کی تعداد 15 بتائی جاتی ہے اس کے لیے ڈملوٹی پائپ لائن کا نظام متعارف کروایا گیا تھا جو ملیر سے شروع ہوکر لائنز ایریا کے گردونواح تک پانی پہنچاتی تھی۔ اس میں ملیر کے گردونواح کے بہت سے کنووں کا پانی بھی شامل تھا جو ڈملوٹی پا ئپ لائن کے ذریعے شہر کی جانب بھیجا جاتا تھا یا پھر شہر کے اندر دوسرے آبی ذخائر سے لوگ پانی حاصل کرتے تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد کراچی شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ پانی کی طلب بڑھتی گئی اور ڈملوٹی کے کنویں خشک ہوتے گئے۔ 1953 میں کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ تشکیل دیا گیا یہ وہ پہلا ادارہ تھا جسے دریائے سندھ کے ذریعہ کراچی کے پانی کی فراہمی کے نظام کی پہلی بڑی توسیع کا کام سونپا گیا تھا۔ 1957ء میں پہلی مرتبہ کراچی کے لیے پانی کا کوٹہ تجویز کیا گیا جس کے مطابق دریائے سندھ سے 242 ملین گیلن روزانہ ربیع کے موسم میں ( یعنی اکتوبر سے اپریل کے مہینے تک) جبکہ خریف کے موسم میں( یعنی مئی سے ستمبر کے مہینے تک) 280 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جانا تھا۔ اس وقت کراچی کی آبادی تقریبًا 17 لاکھ تھی کیونکہ 1961 کی مردم شماری کے مطابق آبادی 19 لاکھ 12 ہزار کے قریب تھی، پانی کے اس منصوبے پر عمل درآمد ادارہ ترقیات کراچی (KDA) کو سونپا گیا جبکہ صاف پانی کی تقسیم اور خوردہ فروشی بلدیہ عظمی کراچی (KMC) کی ذمہ داری ٹھہرا۔ مگر31 سال گزر جانے کے باوجود اس تجویز پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور 1988ء میں جنرل ضیا الحق کے دورمیں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے پہلی مرتبہ گریٹر کراچی منصوبہ برائے فراہمی آب (K-I (شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت روزانہ سپلائی کا کوٹہ 280 ملین گیلن مختص کیا گیا۔ جبکہ شہر کی آبادی 1981کی مردم شماری کے مطابق 54 لاکھ اور 1998 کے مطابق 98 لاکھ تھی۔
جبکہ اس درمیانی عرصے میں پانی کی فراہمی کے پورے نظام کو چلانے کے لیے 1981 میں ایک نئے ذمہ دار ادارے کراچی واٹر مینجمنٹ بورڈ (KWMB) کا قیام عمل میں لایا گیا اور اسے شہر میں پانی کی تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور لاگت کی وصولی کے بہتر اختیارات دیے گئے تھے۔کراچی واٹر مینجمنٹ بورڈ کے آپریشنز کبھی بھی قابل عمل تجویز نہیں تھے کیونکہ اس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا اور وہ پانی کی شرح کی وصولی کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی پر انحصار کرتا تھا جبکہ اس دوران سیوریج کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس رہی۔ پھر 1983 میں حکومت نے پانی کی فراہمی اور سیوریج کی خدمات کو سنبھالنے اور بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیوں سے مدد حاصل کرنے کے لیے ایک متحد ادارے کے قیام کی ضرورت کے نام پر، حکومت نے 1983 کا سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) آرڈیننس نافذ کیا جس کے نتیجے میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت ادارہ فراہمی و نکاسی آب (واٹر اینڈ سیوریج بورڈ) کا قیام عمل میں آیا۔ 1996 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایکٹ 1996 کے نام سے ایک نیا ایکٹ نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بلدیہ عظمیٰ کراچی سے الگ کر دیا گیا ہے اورطے پایا کہ اس ادارے کے سالانہ بجٹ کی منظوری صوبائی حکومت کرے گی۔
کراچی کو پانی کی فراہمی کا دوسرا منصوبہ کے ٹو (K-II)کہلایا جو 1998 میں عالمی بینک کی امداد سے شروع کیا گیا تھا جس سے 100 ملین گیلن یومیہ پانی شہر کو ملنے لگا۔ پھر 2002 میں شہر کی بڑھتی آبادی اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی ہجرت کو مد نظر رکھتے ہوئے کے تھری (K-III) منصوبے کی بنیاد رکھی گئی اور یہ وہ آخری منصوبہ تھا جو شہر کراچی کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے تکمیل تک پہنچا تھا اور 2005 تک شہر کو مزید 100 ملین گیلن یومیہ پانی ملنے لگا۔ 2006 میں ادارہ فراہمی و نکاسی آب نے کراچی کا فراہمی و نکاسی آب کا ماسٹر پلان بنانے کی ذمہ داری جاپان کے ادارے جائیکا کو دی تھی اور آئندہ 25 سال کا ماسٹر پلان بنا تھا جس میں وقت ، سرمایہ اور محنت لگی تھی مگر اس حوالے سے کچھ خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے۔ پھر 2006 میں فراہمی آب کا ایک اور منصوبہ بنایا گیا جس کے تحت مرحلہ وار 650 ملین گیلن پانی شہر کو فراہم کرنا تھا اسے کےفور (K-IV) منصوبے کا نام دیا گیا اس کے تین مراحل رکھے گئے پہلے اور دوسرے مرحلے میں260 ملین گیلن یومیہ جبکہ تیسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن یومیہ فراہم کرنا تھا مگر 17 سال گزرنے کے باوجود اس منصوبے کا ایک مرحلہ بھی تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ موجودہ صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو لگتا ہے کہ کے فور(K-IV) منصوبہ بھی کراچی کے پانی کے مسائل کوحل نہیں کر پائے گا کیونکہ پانی کی تقسیم غیر منصفانہ ہ۔
اسی طرح پانی کے حوالے سے اعلی عدلیہ نے بھی کوشش کی اور دو عدالتی کمیشن بنائے تاکہ اس معاملے کا جائزہ لے کر اسے حل کیا جاسکے،
اگر ہم شہر میں پانی کی فراہمی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پانی کی تقسیم کے نظام کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ پانی اگرچہ کم ہو مگر اسکی تقسیم مساوی ہو اور ہر ایک شخص کو پانی مل سکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کے بعد لوگ محتاط رہیں گے کہ پانی ضائع نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے تعطل کے اوقات کار بھی پانی کی فراہمی پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر پانی کی فراہمی کے مخصوص دن اور اوقات میں بجلی موجود نہ ہو تو بھی لوگ پانی حاصل نہیں کر پاتے اور دوبارہ ان کی باری آنے میں ایک طویل وقفہ ہوتا ہے تو پانی کی فراہمی میں بجلی کا عمل دخل ہے اور اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم بڑے منصوبوں کے بارے میں سنتے ہیں کہ فلاں ادارے نے اتنا قرضہ دیا اور اس سے کام ہوگا اور کراچی کو پانی فراہم کیا جائے گا لیکن ہمیں بڑے منصوبوں کی نہیں بلکہ ہمت اور جذبے کے ساتھ بڑے پیمانے پر انتظامی امور کو بہتر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر پانی کی فراہمی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنی چاہئیے جس میں پانی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی مرمت، تبدیلی اور دیکھ بھال کو ترجیح دی جائے کیونکہ امیر ہو یا غریب سب کا حق ہے کہ اسے پانی ملے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی نئی تعمیرات اور کثیر المنزلہ عمارات کے بننے کے نتیجے میں موجودہ بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور صارفین کے گھروں کے نلکوں تک پانی پہنچنا ناممکن ہوتا جارہا ہے تو ایسے مقامات پر پانی کی ترسیل کے بنیادی ڈھانچے (پانی کی پرانی لائنیں جوعمر پوری کر چکی ہیں) کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی پانی کی تقسیم کے موجودہ انتظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ پانی کی ترسیل میں کراچی میں ( طلب کا 41 فیصد) پانی منصفانہ انداز میں تقسیم نہیں ہورہا جبکہ 59 فیصد پانی کی قلت علیحدہ ہے ۔ ادارہ فراہمی آب مقررپانی کی فراہمی اور پانی کے حجم کے مطابق قیمت کی وصولی کی مدد سے نہ صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کوممکن بناسکتا ہے بلکہ اس سے ادارے کی مالی پوزیشن کو مضبوط کرنےمیں بھی مدد ملے گی۔ اس کےلیے یہ ضروری امر ہے کہ ادارہ ہر صارف کی پانی کی لائن پر میٹر لگائے تاکہ پانی کے ہر کنکشن میں پانی کے حقیقی استعمال کو انفرادی طور پر دیکھا کیا جا سکے۔
پانی فراہم کرنے والی لائنوں پر میٹر لگائےبغیر تقسیم کے معاملات سے نمٹنا ممکن نہیں کیونکہ مین لائنوں پر میٹر لگانے سے پتہ چل سکے گا کہ کس علاقے کو کتنا پانی فراہم کیا جارہا ہے؟ پھر یہ کہ گھروں کی سطح پر کون کتنا پانی استعمال کرتا ہے اور صنعتی پیمانے پر کتنا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ شہر میں لوگوں کو اگر پانی کی ایک طے کردہ مقدار فراہم کی جائے تو ممکن ہے کہ سب کو پانی مل سکے مگر اس کے لئے پانی کے میٹر لگانا ضروری ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور پہلو بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جیسے یہ معلومات بھی عام ہونا ضروری ہے کہ شہر میں ادارہ فراہمی آب کے کتنے صارفین ہیں اور ان میں سے کتنے ماہانہ بل دے رہے ہیں؟ اسی طرح مردم شماری شہر کی آبادی بالکل مختلف بتاتی ہے اور جب اعدادوشمار ہی ٹھیک نہ ہوں تو تمام لوگوں کو باقاعدہ پانی کی سہولت ملنا نا ممکن ہے۔ اسی طرح پانی کے استعمال میں احتیاط کے حوالے سے آگاہی بھی اشد ضروری ہے اورتمام اسٹیک ہولڈرز بشمول شہر کے غریب طبقے کی مشاورت کے بغیر اس مسئلے پر قابو پانا ناممکن ہے۔