اردو شاعری کا ایک قضیہ یہ بھی ہے کہ خواتین نے جو لکھا وہ ’نسوانی ادب‘ کہلایا۔ مگر کیسے؟ کیا ادب میں ’’زنانہ‘‘ یا ’’مردانہ‘‘ ڈبے ہوتے ہیںتو پھر عصمت چغتائی ،قرۃ العین حیدر، اور ذرا پہلے رشید جہاں کس زمرے میں آتی ہیں۔ بعدازاں بانو قدسیہ شریک حیات اشفاق احمد جنہوں نے ’راجہ گدھ‘ تو لکھا مگر بانو آپا نے قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے حوالے سے ’مردابریشم‘ کے عنوان سے بھی لکھا ہے۔ پاکستانی ادب ہو یا معاشرہ عورت کا وجود اور اس کا اظہار کچھ حدیث دیگراں ہے۔ اور پھر وفا کا کاروبار، سب بے کار باتیں ہیں۔ عورت نے اس دنیا میں بہت کچھ برداشت کیا۔ وہ اظہار کرتی ہے یا ذرا سی لب کشائی تو اسے کوئی خوف نہیں ہوتا سوائے مرد کے، وہ کہیں کسی اوٹ سے پھنکارتا ہوا نکل نہ آئے۔
ہیر ہو یا صاحبہ اس کو لکھنے والے بھی مرد حضرات تھے جنہوں نے ’مرد شاہی‘ کے عَلم کو اونچا رکھا۔ اور عورت کو بے وفائی کی خلعت فاخرہ عطا کی مگر اس کے باوجود اس شعلہ جوالہ کو ماند نہیں کر سکے جو ان لوک داستانوں کی عورتوں کے دل ودماغ میں فروزاں تھا۔ سو مردشاہی کے خلاف جنگ کے کچھ اصول تو متعین ہوں جن کا ایک باشعور اور سب کچھ سہنے کے باوجود اپنے طور سے جینے کی آرزو مند فن کارہ ہی سامنا کر سکتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی اصل طاقت کیاہے۔
مجھے گلناز کوثر کی کتاب ’ خواب کی ہتھیلی پر‘ ڈاکٹر ثاقب ندیم کے توسط سے ملی جو انگلینڈ سے اپنی مختصر رخصت پر آیا تو اس نے اپنے تھیلے سے گلناز کوثر کا شعری اثاثہ یہ کتاب نکال کر مجھے دی۔ میں نے اس کے تھیلے میں جھانک کر دیکھا تو اس میں کچھ اور کاپیاں بھی تھیں ’کیا یہ بھی بانٹو گے؟‘ میں نے ثاقب سے پوچھا۔ بولا ’’ہاں‘‘۔ چلو ٹھیک ہے۔ فہرست بناتے ہیں۔ پھر دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور یہ کتاب باذوق لوگوں کے ہاتھوں میں تھماتے ہیں۔ نظمیں پڑھتا رہا اور سوچتا رہا۔ فیس بک پر گلناز کوثر کی نثر میں تحریریںاور نئی نظمیں پڑھنے کو ملیں اور کچھ اسرار کھلے۔
ایک ہُوک سی اٹھتی ہوئی۔ بجھی ہوئی آگ کا دھواں۔ بادلوں کے پیچھے بکھرتی اور جھانکتی چاندنی کی کرنیں۔ مسرور اداسی۔ آرزوئوں اور امیدوں کا ماتم نہیں بلکہ بانسری کی دھن پر ایک مدھم گیت۔ رات کے پچھلے پہر دل میں بس جانے والا کوئی نغمہ۔ گلناز کوثر نے بڑے سہل انداز اور سلیقہ مندی کے ساتھ کینوس پر جو تصویریں بنائی ہیں ان کے رنگ قطعی شوخ نہیں ہیں۔ پروین شاکر جیسی ’’راکھ‘‘ تو اس کے پاس بھی تھی لیکن اسے محبت کے ’نوحے‘ نہیں لکھنا تھے۔ نہ ہی وہ فہمیدہ ریاض کے چلن کا اعادہ کرنا چاہتی تھی۔
ابرار احمد ایک انوکھا شاعر تھا۔ اس کی نظموں پر مشتمل کتاب ’موہوم کی مہک‘نے مجھے دیوانہ کیا۔ میں نے اس کی کچھ نظمیں ظفراقبال کے کالموں میں پڑھی۔ (ظفراقبال مسلسل ابرار احمد کی نظمیں اپنے کالموں میں شامل کرتے رہتے ہیں، حالانکہ وہ خودغزل کے بڑے شاعر ہیں) ابرار احمد کی کتاب ’’سانجھ‘‘ والے امجد سلیم منہاس سے حاصل کی اور اس پر ایک مختصر ریویو’’نیا دور‘‘ میں کیا ۔ابرار کو لنک بھیجا۔ حلقہ ارباب ذوق کے انتخابات میں ڈاکٹر ابرار احمد سے میری آخری (اور شاید پہلی) ملاقات ہوئی۔ تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تم نے اچھا لکھا ہے مگر کچھ زیادہ ہے۔ چلو ٹھیک ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ دنیا سے اچانک رخصت ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں کا لمس اور حدت میں آج بھی اپنے دائیں ہاتھ پہ محسوس کرتے ہوئے اسے یاد کرتا ہوں۔ کاش میں اس کا ہاتھ نہ چھوڑتا۔
ابرار احمد نے گلناز کوثر کی کتاب کے بارے میں لکھا ہے:
’’ نظم ایک مشکل صنف سخن ہے جو شاعر کا امتحان لیتی ہے۔ فنی حوالے سے شعری مواد اور شخصیت کے تناظر میں۔ اس اعتبار سے گلناز کوثر کا پہلا امتیاز تو یہی ہے کہ عام ڈگر سے ہٹ کر نہ صرف اس نے نظم کو باقاعدہ اختیار کیا بلکہ خود کو اس سے فطری طور پر ہم آہنگ ثابت کرتے ہوئے معاصر شاعری میں ایک نئی اور خوشگوار جہت کا اضافہ بھی کر دکھایا۔ بنیادی مسئلہ اس کے ہاں انسانی حالت ہے۔ خواہ وہ اس کی ذات ہے اردگرد موجود زندگی یا پھر اس کے وطن میں برپا رقصِ وحشت کی زد پر آیا ہوا انسان۔ محبت اور اس سے وابستہ جذبات و احساسات اس کے ہاں ایک قدر کا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس جذبے کی گہرائی سے وہ تہہ دار معانی نکال کر اپنے لفظوں میں رکھتی چلی جاتی ہے۔ نظم کے تازہ دم شعراء کی کھیپ میں گلناز کوثر غالباً سب سے زیادہ زور دار اور منفرد آواز ہے۔‘‘
یہ ہے ابرار احمد مرحوم کی رائے جو گلناز کوثر کی نظموں کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ فلیپ، دیباچے، حاشیے دولہا کے آگے یا پیچھے بٹھائے ہوئے شہ بالے جیسے ہوتے ہیں۔ نہ بھی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر جدید نظم کے ایک انتہائی شاندار اور جاندار شاعر کی رائے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ وہ دل میں کسی نظم کی طرح ہی مرتسم ہوتی ہے۔
’ خواب کی ہتھیلی پر‘ کا انتساب کچھ یوں ہے:
’ارقم اور اقراء کے نام
جن کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ
مجھ سے ہیں یا پھر ہم تینوں ایک
ہی تصویر کے تین مختلف زاویے ہیں
کتاب کے آغاز میں گلناز کوثر نے ’’نظم اور میں‘‘ کے عنوان سے جو لکھا ہے وہ اس کے حرف سخن کا پس منظر ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’درد رگوں میں گرہیں لگاتا اور میں بیٹھی انہیں کھولتی رہتی، نظم کہتی۔ میں لاعلاج ہوں اور ضرورت سے زیادہ قنوطیت پسند ہوں۔ لیکن مجھے یہ سب پسند تھا۔ میرے لیے یہی محفوظ راستہ تھا۔ نظم اپنا آہنگ بلند کرنا چاہتی تھی۔ آسمانوں پر پرواز کے لیے مچلا کرتی اور میں اس میںاور گہرا دھنسنے کی کوشش کیا کرتی۔ دراصل زندگی گزارنے کا کوئی نظریہ یا ڈھنگ میرے پاس تھا ہی نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے جیسے خود رو پودے ہوائوں کے تھپیڑے اور بارشوں کے شور سہتے سہتے پلتے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ رہتے نظم کا نصیب بھی یہی تھا۔ سو یہ بھی بغیر نظریے کے پلتی رہی۔‘‘
نظریہ مر جاتا ہے مگر نظم کبھی نہیں مرتی۔ بسااوقات نظریہ تخلیق کو مار دیتا ہے۔ منٹو کو زندگی بھر ترقی پسندوں اور حلقہ ارباب ذوق کے ماضی پرستوں سے چڑ رہی۔ وہ کہتا تھاکہ ’’یہ ترقی پسند ہونا کیا بکواس ہے، ہر انسان ترقی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ترقی پسند منٹو کے افسانوں میں نظریہ تلاش کرتے رہے جو ان کے مطابق کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ نہ سُرخ پرچم، نہ مزدور، نہ ’دائیں‘ نہ ’بائیں‘۔ البتہ وہ مرد وزن کو شہر کے سیٹھوں اور ساہوکاروں کے ہاتھوں اپنا تن من دھن گوشت کے بھائو فروخت کرتے ہوئے اپنی کہانیوں میں دکھاتا رہا۔ عصمت چغتائی نے بھی اپنی کہانیوں میں دہرے معیاروں کو بے نقاب کیا۔ منٹو اور عصمت کی کہانیوں پر مقدمات قائم ہوئے۔ دونوں عدالتوں میں پیش ہوئے لیکن ا نہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی دلیل کا سہارا لیا ان کا ایک ہی موقف تھا کہ سچائی کو ملفوف نہیں کیا جا سکتا۔
فیض صاحب نے ایک نظم ’رقیب سے‘ مخاطب ہو کر لکھی ۔ نظم کا آغاز بہت ہی شاندار تھا جیسے کوئی کسی حسین چہرے سے گھونگھٹ اٹھاتا ہو:
رقیب سے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھْلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اْسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اْس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اْٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
سو ایسا لگتا ہے کہ نظم کے آخری چار بند فیض صاحب ’سوشلزم کا منجن‘ بیچ رہے ہیں جیسے بسوں میں پھیری والے دانتوں کا منجن بیچتے ہیں۔ اس طرح نظریہ تخلیق پر غالب آ گیا۔ اب اس عظیم شاعر کی اس نظم کی پیدائش کے نصف صدی بعد گلناز کوثر ’’رقیب سے‘‘ مخاطب ہے۔ مگر اس کے سوال انوکھے اور منفرد ہیں۔ نظریے سے اسے کوئی غرض نہیں ہے۔ دل میں جو ہُوک اٹھتی ہے وہ اسے لفظوں کے پیراہن دیتی ہے۔ دیکھیے یہ شاعری کا اعجاز، نظم کا حسن یا تخلیق کاکمال ہے۔
ایک سوال (رقیب سے)
کبھی تم سسکتی صدائوں کو سن کر
البتہ زرد مدھم سی امید پر
درد کی گہری دلدل میں اترے؟
تپتے ہوئے گرد رستوں
کٹھن، سرد لمحوں سے گزرے؟
دہکتی ہوئی رات کی کروٹوں میں
کسی خواب کی دھیمی دھن پر
سلگنے کی حسرت رہی ہو
کبھی ایک چبھتی ہوئی یاد دل کو
حزیں کر گئی ہو
کسی سر پھرے جذبے نے
اندھی راتوں میں پاگل کیا ہو؟
فقط ایک پل کے لیے
جیسے روتے ہوئے دل کو
دھڑکا لگا ہو
کبھی کالی راتوں کو
مدھم سُروں سے اُجالا
کبھی ٹوٹے بالوں بچے سگریٹوں کو
چُنا اور سنبھالا؟
کبھی ان نگاہوں کو تتلی لکھا ہو؟
کبھی ان لبوں پر فسانہ کیا ہو؟
کڑی جاں لیوا جدائی کا
بس ایک موسم سہا ہو
کبھی تم نے تھاما
بہت سہمے ہاتھوں کو
جیون کی
مشکل گھڑی میں
کسی اَن کہی کو سنا ہو
گزرے ہوئے وقت کی راکھ سے
کوئی موتی چُنا ہو
بڑی چاہ سے عمر بھر ایک رشتہ بُنا ہو
کہ پھر بھی اُترتی ہیں
کیسی حسیں دلربا ساعتیں
تم پر ساتوں جہاں مہرباں ہیں
ادھر زخمی قدموں میں اب بھی
وہی درد کی بیڑیاں ہیں
وہی خشک صحرا
وہی پیاسے، بھٹکتے، بلکتے ہوئے
دل کی زخمی صدا ہے
میں حیراں ہوں گر یہی ماجرا ہے
تو پھر مجھ سے میرا خدا ہی خفا ہے
کسی نظم یا افسانے کے بارے میں رائے زنی کرنا ایسے ہی جیسے آپ نشتر کے ساتھ کسی پھول کی پتیاں جدا کرکے اس کی ’ماہیت‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ زندگی میں سب سے پہلے میرا واسطہ گیتوں سے ہوا۔ بعدازاں شکیل عادل زادہ کا سب رنگ آیا تو مجھے کسی شاندار رنگ محل میں لے گیا۔ فنون و نقوش آئے تو کئی در کھل گئے۔ پھر شیراز راج آیا۔ قسمت میں آوارگی لکھی تھی۔ آوارہ گردوں اور ’رسوائے زمانہ‘ لوگوں سے یارانہ ہوا تو باکمال لوگوں کے ’حجلۂ دوستی‘ میں داخل ہوا اور ان کے توسط سے کئی ایک معتبر شخصیات سے دوستی ہوئی اور مکالمہ ہوا۔
شیراز راج اردو و پنجابی کا باکمال شاعر ہے۔ لیکن اسے موسیقی سے پیدائشی لگائو ہے۔ بلکہ یوں کہیے غاروں کے زمانے میں ہی وہ نادی دناں دن ۔۔۔سولہ ماترے تین تال کا ٹھیکہ سارے گا مارے گا سارے گا ماپا۔ پھر ایس ڈی برمن،مدہن موہن،کلیان جی آنندجی،لکشمی پیارے، جے دیو، روی اور آر ڈی برمن
آپ کے کمرے میں کوئی رہتا ہے
پنا کی تمنا ہے کہ ہیرا مجھے مل جائے
نیند چراکر راتوں میں تو نے باتوں باتوں میں
ایسے تو نہ دیکھو کہ ہم کو نشہ ہو جائے
تُو تُو ہے وہی دل نے جسے اپنا کہا
دھنو کی آنکھوں میں رات کا سُرمہ اور چاند کا چُما
اور ماںجی رے اپنا کنارہ
آجکل پائوں زمیں پر نہیں لگتے میرے
میرا کچھ ساماں تمہارے پاس پڑا ہے
(گیت،نظم،خواب اور شناسا چہروں نے ہمیشہ متاثر کیا ہے، اس لیے میں گیتوں کو ہزار بار دہراتا ہوں کیونکہ ان کے ساتھ ہی بچپن اور جوانی کے دن بسر ہوئے)
اور یہ سارے گیت ہم دونوں نے مال روڈ پر گا کے اور سناکے ایک دوسرے کو محظوظ کیا۔ سرد راتوں میں سلگتے ہوئے سگریٹ ہاتھوں میں اور لبوں پر ان گیتوں کے بول ہوتے۔ پھر’سرتاپا نظم‘ ثاقب ندیم میری زندگی میں وارد ہوئے۔ گذشتہ بار انگلینڈ سے آئے تو مجھے ان کے حکم کی بجاآوری کے لیے کئی بار ایک ’بلند و بالا عمارت‘ پر بار بار چڑھنا پڑاجو ان کی ذاتی ’ملکیت‘ ہے۔ یہ سزا تھی میرے دیر سے پہنچنے کی اور وہ کہتے رہے چڑھو۔ میں چڑھ جاتا۔۔۔ شیراز راج سے کبھی ’’آئینے کا بھید‘‘ بھی نہیں پوچھا۔ سب کچھ لکھ دیا ’’ٹھنڈا میٹھا چشمہ اور ایک جھکا ہوا درخت‘‘ میں۔ کچھ اوررشتہ بھی ہے اس کے ساتھ۔ بمبئی بالی ووڈ سے ہمارے گیت ہی نہیں آتے اس کے لیے کچھ تحائف بھی آتے ہیں۔ جو وہ اکیلا رکھنا چاہتا ہے تو رکھ لے وہ مجھ سے آٹھ سال چھوٹا میرا بھائی ہے۔
’’عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم‘‘ یہ گیت شیراز راج نے بقول اس کے جنم لینے سے پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں سُنا تھا کہ اس کے ماں باپ گاتے تھے۔ ہارمونیم ان کے گھر میں تھا اور چاند چرا کے لایا ہوں چل بیٹھیں چرچ کے پیچھے تو محض ایک گیت تھا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں گیت سنتے سناتے وہ جواں ہوا اور ازابیلا کو پیارا ہو گیا ہر بُرے آدمی کا یہی انجام ہوتا ہے۔
لاہور کے ایک گنجان آباد علاقے سے انگلینڈ کی جانب اور پھر دیارِ مغرب میں ہی مستقل قیام۔ وہاں پر ہم زباں، ہم خیال شخصیات کا حلقہ ارباب ذوق جو آپس میں اپنی تخلیقات ایک دوسرے سے سنتے سناتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا ، فیس بک ہے جہاں بہت سارے دوستوں کے خیالات سے آشنائی ہوتی ہے۔ گلناز کوثر ان میں سے ایک ہے۔
اس کی نظموں کا کینوس بہت منفرد ہے۔ وہ نظم کو جس سبھائو کے ساتھ لکھتی ہے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی موسیقی کی طرز پر لفظ ترتیب دے رہی ہو۔ کوئی پیانو، بانسری، یا ستار یا کبھی طبلے کی تھاپ کے ساتھ خیالات کا بہائو کسی آبشار کی مانند بہتا ہو۔
اس تصویر کے دوسرے دو زاویے ارقم اور اقرا ہی گلناز کوثر کے اظہار کے خوبصورت پیرائے ہیں جو اس کو وہ توانائی اور تازگی دیتے ہیں جس نے اس کے شعور اور سوچ کی روشنی کو مدھم نہیں ہونے دیا۔ اس کو حوصلہ دیا کہ تصویر کے رنگ کیسے اُجالنے ہیں۔ سو یہ ایک مکمل اور دلکش تصویر ہے جسے کسی حاشیے کی ضرورت نہیں ہو سکتی۔
گلناز کوثر کی ایک نئی نظم میں نے کچھ عرصہ پیشتر پڑھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا:
خوشبوئوں کے موسم میں
کاغذوں پر رنگوں سے تتلیاں بناتی ہوں
اور بھول جاتی ہوں
لخت لخت حرفوں سے دھیان کے دریچے پر
خواب اک سجاتی ہوں اور بھول جاتی ہوں
ڈر کی کہانی کیا عجب کہانی ہے
کس قدر چھپائی کس قدر سنائی ہے
کہ نصیب لفظوں پر بے خوار سطروں پر
حاشیے لگاتی ہوں اور بھول جاتی ہوں
میں نے کچھ نوٹس لے رکھے تھے کیونکہ گلناز کوثر کی کتاب ’’ خواب کی ہتھیلی پر‘‘ مرزا شرجیل انظر صاحب کو میں دے آیا تھااور جو میں نے اس کتاب کے حوالے سے کچھ نوٹس لے کر سنبھال رکھے تھے ان کی مدد سے میں نے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔انہی نوٹس پر ایک شعر لکھا ہوا تھاپتہ نہیں وہ کس کا ہے:
ہو دید کا شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
گلناز کوثر رہتی تو دیارِ غیر میں ہیں لیکن اس کا دل وہاں دھڑکتا ہے جہاں اس کا بچپن گزرا اور جہاں اس نے تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا۔اسی لیے وہ لمحہ بہ لمحہ لاہور پاکستان کے ثقافتی اور ادبی حالات سے بخوبی آشنا رہتی ہیں۔کس کی نئی کتاب آئی ،کون راہی عدم ہوا ،کیا کچھ انہوں نے پڑھا، کیا لکھاوہ حرف حرف سب کچھ لکھتی ہیں اور شیئر کر لیتی ہیں۔
گُل ناز کوثر نے اپنی روایت سے کچھ اس طور انحراف کیا ہے کہ شعروادب کی دنیا میں نئی جہت اور اسالیب سے ناطہ جوڑا ہے۔ اُس کی شعری لفظیات منفرد ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نظم کی زبانی کوئی کہانی سنا رہی ہے۔ ایسی کہانی جس میں کوئی ہیرو یا ہیروئن نہیں۔ ایک خودکلامی ہے یا حیرت کدہ آباد ہے۔ میں اس کی نظموں کو قوس قزح کے رنگوں کی مانند دیکھ رہا ہوں۔وہ ایک شاندار شاعرہ ہے خوب رُو نظم لکھتی ہے۔ دیوارِ زیست پر اپنے حصے کے خیال،الفاظ اور خواب رقم کر رہی ہے۔جو اس کے پڑھنے والوں کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کیا وہ اپنے قاری تک اپنے خیالات پہنچا سکے گی جو کہ ابھی تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ یہاں ’’ خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے حوالے سے اظہاریے دیکھنے کو نہیں ملے۔(ناتمام)