یہ پی ٹی وی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ ریڈیو سے ٹیلی ویڑن میں خدمات انجام دینے والے سید کمال احمد رضوی پروگرام ’سر راہ‘ کررہے تھے۔ جس میں زندگی کے عام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں افراد کو اسٹوڈیو بلا کر اْن کے نشیب و فراز ناظرین کے گوش و گزار کیے جاتے۔ اسی دوران ایک دن ایک صاحب، ان کے سیٹ ڈیزائنر کی بیوی کا سفارشی خط لے کر کمال احمد رضوی کے پاس پہنچے اور فرمائش کی کہ ٹی وی میں کوئی چھوٹا موٹا کردار دے دیں۔ کمال احمد رضوی نے یہ کہہ کر ان صاحب کو ٹہلا دیا کہ ابھی کوئی کام نہیں۔ جب ہوگا بلا لوں گا۔ اس واقعے کے کچھ ہفتوں بعد کمال احمد رضوی جھلا کر آغا ناصر کے کمرے میں پہنچ گئے۔ انتہائی دکھے بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ ’میں یہ پروگرام ’سر راہ‘ کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ میں نے ٹیلی ویڑن کا رخ اس لیے کیا تھا تاکہ کچھ اداکاری کروں یا پھر اسکرپٹ لکھوں، کب تک میں یہ پروگرام کرتا رہوں گا، اب اکتاہٹ ہوگئی ہے۔ آغا ناصر جو اْن دنوں کراچی سے لاہور ٹرانسفر ہوئے تھے۔ انہوں نے انتہائی اطمینان اور سکون سے کہا کہ جو کرنا چاہو کرلو، کھلی اجازت ہے۔
آغا ناصر سے گرین سگنل ملنے کے بعد کمال احمد رضوی نے سوچ کے گھوڑے دوڑائے۔ تبھی ان کے ذہن میں دو کردار آئے، ایک شاطر اور دوسرا سادہ لوح انسان کا اور کہانی انہی دونوں کے گرد گھومتی ہے۔ ہوشیاری اور چالاکی ایک دکھاتا ہے تو دوسرا بے چارہ سیدھا سادھا اپنی بے وقوفی میں یہ سارے منصوبوں کو خاک میں ملادیتا ہے۔ ابتدا میں اس ٹیلی منصوبے کا نام ’آؤنوکری کرو‘ رکھا گیا۔ جس میں مختلف شعبوں کے گرد گھومتی کہانی پیش ہونی تھیں۔ جبکہ ڈائریکشن اور اسکرپٹ لکھنے کا ارادہ خود کمال احمد رضوی کا تھا۔ کمال احمد رضوی نے فیصلہ تو کرلیا تھا کہ وہ بھی اس ڈرامے میں ہوں گے لیکن اپنے مقابل اداکار کی تلاش کے دوران انہیں اچانک انہی صاحب کا خیال جو سیٹ ڈیزائنر کی بیوی کا خط لے کر ان تک پہنچے۔
اب اْنہیں بلایا گیا اور کمال احمد رضوی نے اپنے مخصوص انداز میں دریافت کیا کہ کبھی اداکاری کی بھی ہے؟ توجواب ملا کہ نہیں۔ یہ وہ دور تھا، جب ٹی وی کو ایکٹر نہیں ملتے تھے اور زیادہ تر خوبرو اور پرکشش مرد اداکاروں کو اہمیت دی جاتی۔ لیکن کمال احمد رضوی چاہتے تھے کہ وہ اس تاثر کو بھی بدل کر رکھ دیں۔ اسی لیے رضوی صاحب نے ان صاحب کو تھوڑا بہت سمجھایا۔ اْس زمانے میں ٹی وی سے براہ راست ڈرامے نشر ہوتے تھے اور جس دن کمال احمد رضوی کا یہ ڈراما نشر ہونا تھا۔ وہ صاحب خاصے نروس اور پریشان پریشان تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گھبراتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ یہ سب نہیں کرسکتے۔ انہیں ڈر لگ رہا کہ کہیں وہ براہ راست نشریات کے دوران منہ کے بل نہ گرجائیں۔ تب کمال احمد رضوی نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ’یہ تمہاری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ گھبرائے تو یہیں سے واپس لوٹ جاؤ گے۔‘ نجانے کمال احمد رضوی کے ان اِلفاظ میں کیا اثر تھا کہ اِن صاحب کے اندر جیسے نئی روح پھونک دی۔ جنہوں نے پراعتماد انداز میں اپنے کردار کو ایسے ادا کیا کہ انہیں خود یقین نہیں آیا۔ اب یہ صاحب کوئی اور نہیں رفیع خاور تھے۔ جو ننھا کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔جو بیشتر انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کرتے کہ اگر کمال احمد رضوی نہ ہوتے تو انہیں وہ مقام نہیں ملتا، جو ان کے مقدر میں آیا۔
کچھ عرصے بعد اسی تخلیق کو باقاعدہ سیریز کے تحت پیش کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ مسئلہ اس کے نام کا تھا۔ کئی نام زیر غور آئے۔ جو بھی ٹائٹل پسند کیا جاتا، اسے آغا ناصر مسترد کردیتے۔ تبھی ایک میٹنگ میں کسی نے غصے میں آکر کہاکہ جب نام سمجھ نہیں آرہا تو آغا ناصر ہی رکھ دیتے ہیں۔ جس پر آغا ناصر نے ازراہ مذاق کہا کہ ’الف نون کیسا رہے گا؟ الف سے آغا اور نون سے ناصر۔‘ نام میں خاصی کشش محسوس ہوئی اور پھر یکم جون 1965کو اس سلسلے کا پہلا ڈراما نشر کیا گیا۔ جسے عوام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل رہی۔
الف یعنی الن کے کردار میں کمال احمد رضوی جبکہ نون کے روپ میں رفیع خاور عرف ننھا جلوہ گر ہوئے۔ الف ایک ایسا کردار تھا جو دوسروں کو بے وقوف بناتا جبکہ ٹھگنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا لیکن اس کے سارے ارمانوں پر اْس وقت اوس پڑ جاتی جب نون یعنی ننھا اپنی سادگی اور بے وقوفی سے رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ۔ ’الف نون‘ کی شہرت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جب یہ نشر ہوتا سڑکیں سنسان ہوجاتیں یہاں تک کہ دکانیں بند ہونے لگتیں۔ کمال احمد رضوی کے معاشرے پر طنزیہ جملے ہوتے تو وہیں ننھا کی اوٹ پٹانگ حرکتیں سب کو لوٹ پوٹ کرکے رکھ دیتیں۔ یہ ڈراما سیریز 30نومبر1965 تک جاری رہی۔ کمال احمد رضوی کی کاٹ دار تحریر اور پھر دلچسپ ڈرامائی واقعات کا ہی یہ سحر تھا کہ اس سیریز کو عوامی فرمائش پر تین سال بعد 1968میں پھر سے شروع کیا گیا۔ جس کا اختتام18 مارچ 1969کو ہوا۔ کمال احمد رضوی کا کہنا تھا کہ ڈرامے کی چھ دن ریہرسل ہوتی، ایک دن کیمرا ریہرسل اور پھر باقاعدہ ریکارڈنگ۔’الف نون‘ کو تیسری بار 1971میں اور چوتھی بار 1981میں پیش کی گیا۔ یہ پی ٹی وی کی یقینی طور پر وہ واحد ڈراما سیریز ہوگی، جسے اتنے عرصے تک چار ادوار میں پیش کیا گیا۔ ڈراما سیریز کے مختلف کھیلوں کو کتابی صورت میں بھی پیش کیا گیا ۔
رفیع خاور ننھا کو ’الف نون‘ کے ذریعے ہی فلم نگری میں قدم جمانے کا موقع ملا جبکہ ابتدائی دنوں میں جب وہ اس ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھاتے تو انہیں 150 روپے جبکہ کمال احمد رضوی کو 500روپے کا معاوضہ اس لیے ملتا کیونکہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ اسے لکھتے اور ڈائریکشن بھی دیتے۔ کمال احمد رضوی کے اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے80کی دہائی میں کراچی میں جب ’الف نون‘ کو اسٹیج پر سجایا تو اس کے 72ہزارروپے مالیت کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔جو اْس دور میں تھیٹر سے حاصل ہونے والی خطیر رقم تصور کی جاتی تھی۔