پاکستانی اخبارات کے فرنٹ پیج ہوں یا بڑے بڑے ٹیلی وژن چینلز، اس سال سانحہ اے پی ایس کو وہ کوریج نہ ملی جس کے یہ شہدا اور ان کے لواحقین حقدار ہیں۔ یہ سچ ہے کہ غریدہ فاروقی اور مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے اپنے پروگرامز میں اس پر آواز اٹھائی اور شہدا کو خراجِ تحسین پیش کیا لیکن مبینہ طور پر ٹاپ ریٹنگز کے حامل اینکرز نے اس موضوع پر بات نہیں کی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ 16 دسمبر کو کسی بڑے ٹیلی وژن کے ٹاک شو پر سانحہ اے پی ایس کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا۔ ان میں کیپیٹل ٹاک (جیو نیوز)، کل تک (ایکسپریس)، آن دی فرنٹ (دنیا نیوز) اور آف دی ریکارڈ (اے آر وائی) نمایاں ہیں۔ ہاں البتہ جاوید چودھری نے سرسری سا ذکر کیا اور پھر موضوع ہی بدل دیا۔
حتیٰ کہ آزاد صحافت کے چیمپیئن شاہزیب خانزادہ نے بھی اس پر پروگرام کرنا گوارا نہ کیا۔ کسی کا دل پسیجا بھی تو اس نے ہلکی سی گفتگو کر کے بات کا رخ ہی کسی اور جانب موڑ دیا۔ اگر اس پر کچھ لکھا گیا یا نشر ہوا تو وہ بھی صرف سوشل میڈیا یا نجی نیوز ویب سائٹس پر۔
نجی ٹیلی وژن چینل کے مانیٹرنگ محکمے سے وابستہ ایک صحافی نے بتایا کہ انہیں سانحہ اے پی ایس پر خبر یا آرٹیکل لکھنے کے لئے اس مرتبہ کوئی ہدایت نہیں کی گئی۔ حالانکہ پچھلے 6 سالوں میں جب بھی 16 دسمبر کی تاریخ قریب آتی، اس پر تفصیلی تحاریر لکھنے کی خصوصی ہدایات جاری کی جاتی تھیں۔
صحافی نے بتایا کہ اس مرتبہ تو خبروں میں واضح طور پر ٹی ٹی پی کا نام لکھنے سے بھی گریز کرتے ہوئے دہشتگردوں کو صرف شرپسند عناصر لکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا۔
"ہمارے سامنے مسلسل تمام ٹی وی چینلز کھلے ہوتے ہیں کیونکہ ہمارا کام ہی مانیٹرنگ ہے۔ میں یہ کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ مجھے اس سال APS کے حوالے سے کوئی خصوصی پروگرامنگ نظر نہیں آئی۔ لگتا ہے ہم دہشتگردوں سے دوستی کی خواہش میں اپنے بچوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور وہ معاہدے کی پاسداری کرنے کو بھی راضی نہیں۔ اب تو ان کا نام بھی نہیں لکھتے۔ بس 'شرپسند عناصر' لکھ رہے ہیں"۔
اسلام آباد میں مقیم ایک اور نجی چینل سے وابستہ سینیئر رپورٹر کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس کو بھلانے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس مرتبہ اسلام آباد میں اس پر کوئی اعلیٰ سرکاری تقریب منعقد نہیں کی گئی۔ "جب تقریب ہی نہیں ہوئی تو کوریج کس چیز کی کرتے؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کر کے اپنے کاندھوں پر لدا ذمہ داری کا بھاری بوجھ اتار دیا"۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں دیکھا گیا تھا کہ حکومت یا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اس سانحے کو بھرپور کوریج دی جاتی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا نہ ہوا۔ بہرحال ٹی وی چینلز کو ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں کہ سانحہ اے پی ایس پر پروگرام نہ کیے جائیں۔
ہاں اتنا ضرور ہوا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹیلی وژن چینل اے آر وائی نے خبر چلائی کہ شہید بچوں کے والدین نے حکومت سے لاکھوں روپے اور مراعات حاصل کر لی ہیں۔ یہ خبر نشر ہوتے ہی کئی والدین مشتعل ہو گئے اور تقریباً 70 کے قریب لواحقین نے اے آر وائی پشاور کے دفتر کا گھیرائو کر لیا اور گھنٹوں احتجاج کیا۔ ان والدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی پیسے وصول نہیں کیے۔ اور ARY کو یہ تحقیق کرنی چاہیے تھی کہ کتنے لواحقین کو رقم ملی اور کتنے والدین تھے جنہوں نے ایسی کوئی رقم نہیں لی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے compensation دینے کا حکم دیا تھا۔ ARY کا کام تھا کہ وہ تحقیق کرتا کہ یہ رقم کس مد میں خرچ ہوئی ہے۔ لیکن یہ تک نہ ہوا۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1471455457768357888
ان کا کہنا تھا کہ چینل اس سانحہ اے پی ایس اور والدین کے حوالے سے مسلسل جعلی خبریں چلاتا ہے۔ مظاہرے میں شریک غمزدہ والدین کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی اپنے پیاروں کی شہادت پر غمزدہ ہیں لیکن جھوٹی خبریں چلا کر اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
ادھر دنیا نیوز نے بھی خبر لگائی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور پاک فوج کی جانب سے اب تک 1545 ملین روپے سے زائد رقم شہدا کے لواحقین اور متاثرین کی دادرسی کے لئے خرچ کی جا چکی ہے۔ یہ رقم کس مد میں خرچ ہوئی، لواحقین کو دی گئی یا کسی اور مصرف میں لائی گئی، ان حقائق تک پہنچنے کی کوشش دنیا نیوز کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔