آج لاہور میں لبرٹی چوک کے گول چکر پر، جو اب احتجاج اور سیاسی ریلیوں کے لیے شہرت اختیار کر گیا ہے، ایک شخص مائیکروفون پر ' طالبان کا یار' ( طالبان کا دوست) کی صدائیں بلند کر رہا تھا۔ فوجی یا کم از کم فوجی وردیوں میں ملبوس چند لوگوں نے اسے اردگرد سے گھیر رکھا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ میں نے اس واقعے سے متعلق ایک تحریر پڑھی تھی اور مجھے یہ آج بہت متعلقہ لگ رہی ہے:
'سردی کی آمد ماؤں کو ایک ہی فکر میں مبتلا کرتی ہے کہ بچوں کو کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ اس لیے وہ گرم کپڑوں کا بندوبست کرتی ہیں۔ کیا وہ سوچ سکتی تھیں کہ آج وہ گرم کپڑوں کے بجائے اپنے بچوں کو باریک سفید کفن اپنے ہاتھوں سے پہنائیں گی اور کہرے میں لپٹی یخ مٹی کے سپرد کر دیں گی!'
ان بچوں کی وردی کا رنگ سبز تھا۔ یہ وہ رنگ ہے جو پاکستانی پرچم کا حصہ ہے، یہی دین اسلام کا بھی رنگ ہے۔ ان معصوموں کو خون میں لتھڑے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مذہب کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے کیونکر معصوم بچوں پر حملہ کر سکتے ہیں! یہ پرائمری سکول کے بچے تھے یا کچھ مڈل سکول جانے والے تھے۔ یہ سبھی نوعمر تھے۔
ایک بچہ اس سے بڑھ کر کیا جرم کر سکتا ہے کہ اس نے سکول کا کام نہ کیا ہو یا پھر بہت ہی شرارتی ہو اور استادوں یا والدین کے ناک میں دم کر رکھا ہو۔ کیا یہ سزا ہے اس جرم کی کہ اسے خون میں نہلا دیا جائے؟ بچوں کی شرارتیں بھلا کب سے گناہ قرار دی جانے لگیں اور کب سے یہ ہونے لگا کہ انہیں سزا کے طور پر جان سے ہی مار دیا جائے؟
ہم نے شمالی وزیرستان میں ایک فوجی آپریشن بھی کیا اور اسے کامیابی بھی قرار دے دیا۔ اس سے ہمارے لوگوں نے کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر سکھ کا سانس ضرور لیا۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد ہمیں تقسیم نظر آنا شروع ہو گئی اور خطرہ بڑھ گیا کہ اب جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پشاور میں سکول کے بچوں پر یہ ہولناک حملہ کسی مذہب، نسل، طبقے یا مسلک کی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ یہ خون کی ہوس میں اندھی ہو جانے والی ایک جماعت کا فعل ہے۔ ان بچوں کو محض اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ وہ آرمی پبلک سکول گئے تھے۔
لوگ اب تک سوال پوچھتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر روز جب ایک پاکستانی اپنے گھر سے نکلتا ہے تو وہ اس خوف اور خطرے کے خلاف لڑ رہا ہوتا ہے جو مستقل طور پر اس کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے۔
ہمارے ملک میں بہائے جانے والے خون کے ہر قطرے کے نشان طالبان کی طرف جاتے ہیں۔ مذمت اور نفرت کی وجہ سے طالبان اور زیادہ بڑھتے چلے گئے اور انہوں نے حملوں کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا۔ ملالہ یوسفزئی نے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کی اور ان پر بھی حملہ ہوگیا مگر شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔
خودکش حملہ آور کو روکنے والے بچے اعتزاز حسن نے اپنی جان قربان کر دی تاکہ اس کے ساتھی طالب علم زندہ رہ سکیں۔ ابتہاج جو ایک چھوٹا سا ہزارہ لڑکا تھا، مستونگ میں اپنی ماں اور بہنوں سے محروم ہو گیا۔ شکر ہے وہ خود زندہ بچ گیا اور اس نے درد سے مسکراتے ہوئے بہادری کے جذبے کو اور بڑھا دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بموں اور خودکش حملوں کا نشانہ بننے والے مزید ہزاروں بچے زندہ نہیں بچ سکے۔
ہم ایک ایسی قوم ہیں جس نے بہت دکھ جھیلے ہیں، جو اتنی وحشت سے گزری ہے کہ مایوسی، بے بسی اور ناامیدی سے مغلوب ہونا ہمارے لیے ایک فطری بات ہے۔ پاکستانی بچوں نے ان مسائل کی قیمت چکائی ہے جو ان کے اپنے پیدا کردہ نہیں تھے۔ انہیں پالیسی سازوں کے جرموں کی سزا بھگتنی پڑی۔ ان عسکریت پسندوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہمیں مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا؟
جب تک طالبان موجود رہیں گے، یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے جو لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو جینے دینا چاہتے ہیں، انہیں خود کو مضبوط رکھنا ہوگا اور ڈٹے رہنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں سکون سے رہیں اور زندگی کی خوبصورتی کو سراہ سکیں۔
بچوں کے کپڑوں پر روشنائی کے دھبے تو جچتے ہیں مگر خون کے ہرگز نہیں۔ انہیں کھیل کے میدان میں گر کر چاہے رگڑ لگ جائے یا کاغذ کی تیز نوک سے بھلے زخم آ جائے مگر گولیوں کے زخم انہیں کیوں آئیں بھلا؟
سبھی بچوں کا یہ حق ہے کہ وہ زندہ سلامت رہیں اور خدا کرے کسی بھی بچے کے والدین اتنے بدنصیب نہ ہوں کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے معصوم بچوں کو قبر میں اتارنا پڑے۔ اس میں سنی، شیعہ، احمدی، عیسائی، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی، ہزارہ، امیر، غریب، کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں۔ کسی بھی انسان کو خدا یہ دن نہ دکھائے۔
الوداع میرے بچو! تم ہمیشہ ہماری یادوں میں کلیوں کی مانند مہکتے رہو گے۔
مہر حسین کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے 'نیا دور' اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔