کیا چین نئے اتحادی بنا کر مشرق وسطیٰ سے امریکہ کی چھٹی کروانے والا ہے؟

03:37 PM, 17 Dec, 2022

پروفیسر کامران جیمز
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا ایک نئے دو قطبی نظام (Bi-Polar System) کی جانب گامزن دکھائی دی اور پھر دو بڑی عالمی قوتوں کے درمیان مفادات کی جنگ نے سرد جنگ (Cold War) کی صورت اختیار کر لی جس نے بالآخر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 1991 میں سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد دنیا ایک قطبی نظام (Unipolar System) کی جانب گامزن ہو گئی اور پھر ایک نئے سامراج نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانا شروع کر دیا۔

مشرقِ وسطیٰ نہ صرف نئے سامراج بلکہ کئی یورپی ممالک خصوصاً برطانوی مفادات کے لیے بھی ایک اہم خطہ رہا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی برطانیہ خلیج فارس (Persian Gulf) پر اپنے اثرونفوذ کو کسی صورت بھی کم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سامراجی قوتوں نے ایران میں اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ہی ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے نہر سوئز کو قومیانے کے اعلان کے ساتھ ہی برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مصر کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا تاہم بعد میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا۔

لیکن برطانیہ، فرانس اور دیگر کئی مغربی ممالک کے خطے سے انخلا کے ساتھ ہی ایک نئے سامراج نے عرب ممالک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران عربوں نے مغرب کے خلاف تیل کا کامیاب ہتھیار استعمال کیا اور مغرب کی معیشتوں میں شدید کساد بازاری دیکھنے کو ملی۔ نیا سامراج نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی اپنے مذموم مقاصد کی خاطر حکومتوں میں تبدیلیوں میں کبھی براہ راست اور کبھی مخفی قوتوں کے ذریعے برسرپیکار رہا ہے۔ دراصل غیر منصفانہ عالمی مالیاتی نظام اور تجارتی پالیسیوں کی بدولت ہی نیا سامراج آج بھی ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی و سیاسی صورت حال کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔

نیا سامراج آج بھی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے قدم مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ چند ماہرین کے مطابق اب بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید مشرقِ وسطیٰ (Middle East) پر امریکہ کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور شاید دنیا دوبارہ دو قطبی نظام (Bi-Polar System) کی جانب گامزن ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اب امریکہ کے علاوہ کئی کھلاڑی یعنی روس، چین اور بھارت اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے برسرپیکار ہیں۔

بعض مبصرین امریکی صدر جوبائیڈن کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں انسانی حقوق پر امریکہ کا دوہرا معیار اور سعودی صحافی جمال خشوگی کے مسئلے پر امریکہ کا سخت مؤقف بھی شامل ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے امریکہ اور سعودی عرب کے ناخوشگوار تعلقات کا چین بھرپور فائدہ اٹھانے جا رہا ہے۔ سعودی قیادت نے چین کے صدر کا سعودی عرب پہنچنے پر شاندار استقبال کیا۔ ماہرین کے مطابق شاید ایسا استقبال کبھی بھی کسی بھی امریکی صدر کا سعودی قیادت کی جانب سے نہیں ہوا۔ چین کے صدر کا پرتپاک ریڈ کارپٹ استقبال خصوصی طور پر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ چین آہستہ آہستہ امریکہ کے بڑے اتحادی ممالک کو اپنے کیمپ میں شامل کرتا چلا جا رہا ہے۔

چین کے صدر نے تقریباً سات سالوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا۔ چین کے صدر کے دورہ سعودی عرب کو نہ صرف واشنگٹن بلکہ کئی اہم یورپی ممالک میں انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ چینی صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 30 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں 40 سے زائد معاہدے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ انسانی حقوق کے نام پر امریکہ کئی دفعہ دونوں ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر چکا ہے۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ ایک دوسرے کی آزادی اور علاقائی خود مختاری کے احترام کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس موقع پر سعودی عرب نے ایک دفعہ پھر (One China Policy) کی حمایت کی ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ایک طرف امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں چین کے بڑھتے اثرونفوذ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب چین بھی دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔ دراصل دونوں ممالک یعنی چین اور سعودی عرب نے 'عدم مداخلت' کا پیغام امریکہ کو واضح انداز میں دے دیا ہے جو کئی دفعہ دونوں ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر چکا ہے۔

چین نے صاف اور واضح الفاظ میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی پیداوار میں استحکام اور بیلنس (Balance) کی سعودی پالیسی کی حمایت کی ہے۔ دوسری جانب چین بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ (Belt and Road Project) میں سعودی سرمایہ کاری کا بھی خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ہر دو سال بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک سربراہی کانفرنس کا بھی انعقاد ہوگا۔ اس سے دونوں ممالک اپنی Strategic Partnership کو مزید بڑھا سکیں گے۔ اس دورے کے دوران چین کے صدر نے محمد بن سلمان کو چین کے دورے کی باضابطہ دعوت بھی دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ اب Huawei Tech سعودی عرب اور پھر دیگر کئی عرب ممالک میں اپنے کاروبار کو وسعت دے گا۔ یاد رہے Huawei Tech پر امریکہ اور دیگر کئی یورپی ممالک جاسوسی کا الزام لگا چکے ہیں اور امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے اس کمپنی پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے اثرونفوذ سے بھارتی حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر جب محمد بن سلمان نے اپنا دورہ بھارت منسوخ کیا تو بھارتی پالیسی سازوں کو انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں عرب اسرائیل تعلقات میں بہتری بھی شاید خطے میں اب امریکہ کے اثرونفوذ کو کم کرنے کا باعث بنے گی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کوششوں سے یقیناً عرب اسرائیل تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے لیکن شاید یہی پالیسی مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اثرونفوذ کو کم کرنے کا بھی باعث بن رہی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات نے کئی شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ ترکی نے ایک دفعہ پھر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے ہیں۔

عرب اسرائیل تعلقات میں بہتری کی وجہ سے مستقبل قریب میں عرب اسرائیل جنگ کا کوئی امکان نہیں جس سے خطے میں امریکہ کا مصالحتی کردار تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ بعض مفکرین چین اور عرب ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کا سہرا پاکستان کے سر سجاتے ہیں جب گزشتہ اسلامی ممالک کی کانفرنس میں پہلی دفعہ چین کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے اثرونفوذ سے امریکی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سابق امریکی صدر جوبائیڈن کو اس وقت شدید شرمندگی اٹھانا پڑی جب محمد بن سلمان نے تیل کی پیداوار بڑھانے کے امریکی مشورے کے جواب میں صاف انکار کر دیا اور (OPEC+)ممالک کے وضح کردہ میکنزم (Mechanism) پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کے اس اقدام کی چین کے صدر نے اپنے دورہ سعودی عرب میں بھرپورحمایت کی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں چین کی کامیاب خارجہ پالیسی کا راز یہ بھی ہے کہ چین اسرائیل اور عرب ممالک دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کیے ہوئے ہے۔

یقیناً چین اور عرب ممالک کو آپس میں قریب لانے میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہے۔ لیکن اب پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا جب خصوصاً اسرائیل اور عرب ممالک نے بھی اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیا ہے۔ یقیناً مشرقِ وسطیٰ میں کئی نئے کھلاڑیوں کی موجودگی میں وطنِ عزیز پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی ایک مؤثر حکمتِ عملی تشکیل دینا ہوگی۔

کچھ ماہرین محمد بن سلمان کو شاہ فیصل مرحوم کے بعد عرب دنیا کا سب سے بڑا لیڈر قرار دے رہے ہیں چونکہ شاہ فیصل کے بعد محمد بن سلمان نے تیل کی سیاست (Politics of Oil) کا کھیل اب تک شاندار طریقے سے کھیلا ہے۔ ماہرین کے خیال میں امریکہ کے بعد سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدارچین ہے اور تیل کا یہ تجارتی لین دین چین کی کرنسی یووان میں ہوگا۔ جس سے امریکی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن ڈالر کے مستقبل کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ چین کے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے سے بحیرہ ہند، جنوب مشرقی ایشیا اور جزیرہ نما کوریا میں چین کے اثرونفوذ کو کم کرنے کی امریکی پالیسی بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیا میں امریکہ کا بڑا اتحادی بھارت بھی روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی پر گامزن ہے اورامریکہ اپنے پرانے اتحادی سعودی عرب کے ذریعے روس کی معیشت پر اثر انداز ہونے میں بھی ناکام رہا ہے۔

بظاہر امریکہ کی دنیا کے مختلف خطوں میں چین کے خلاف حصار بنانے کی پالیسی ناقابل عمل دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ دوسری جانب روس پر امریکی اور مغربی ممالک کی پابندیاں بظاہر بے اثر دکھائی دے رہی ہیں۔ اب بھارت کے بعد پاکستان کے بھی روس سے سستا تیل خریدنے کے امکانات روشن ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یقیناً بین الاقوامی تعلقات میں مستقل بنیادوں پر کوئی دوست ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دشمن بلکہ صرف قومی مفادات (National Interest) ہی مستقل ہوتے ہیں۔
مزیدخبریں