محمد جام کو جام ساقی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 31 اکتوبر 1946 میں تھرپارکر ڈسٹرکٹ کے گاؤں جانیہی میں تدریس کے شعبے سے منسلک گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد محمد سچل تعلیم کے شعبے سے منسلک تھے جنہوں نے تھر میں سکولوں بالخصوص بچیوں کے سکول کھلوالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جام ساقی کی والدہ مینھابائی شادی کے وقت غیر تعلیم یافتہ تھیں لیکن محمد سچل نے انہیں تعلیم سے روشناس کروایا اور ان کے استانی بننے میں کردار ادا کیا۔ ضیاالحق کے دور حکمرانی میں جام ساقی کوجب گرفتار کیا گیا تھا تو اس وقت کراچی سے گلگت تک ان کی رہائی کے مطالبات دیواروں پر آویزاں تھے۔ انہوں نے یہ مقبولیت اور عزت اپنی مستقل لگن اور پسے ہوئے طبقات کیلئے قربانی دیکر حاصل کی تھی۔ جام ساقی متعدد بار پابند سلاسل کیے گئے۔ انہیں پہلی مرتبہ 5 مارچ 1967 میں جامعات کے معاملات میں بیوروکریسی کی مداخلت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ سلاخوں کے پیچھے جام ساقی نے اپنی زندگی کے 14 برس بتائے جن میں سب سے طویل اسیری کا عرصہ مسلسل آٹھ سال کی قید کا تھا۔ انہوں نے شاہی قلعہ لاہور میں بھی اسیری کے دن گزارے۔
ضیاالحق کے دور میں ان پر فوجی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا جس کی سزا موت ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں ان کے دفاع میں بطور گواہان پیش ہونے والے افراد میں خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو اور بینظیر بھٹو شامل تھے۔ جام ساقی نے پرائمری تک کی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی اور تھر سے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے حیدرآباد شہر چلے گئے۔ انہوں نے جیل میں اسیری کے دوران پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے حیدر آباد سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں اور سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کے طور پر بھی کام کیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفا دیا تو جام ساقی نے انہیں 13 دسمبر 1966 کو ایک طلبہ کنونشن میں مدعو کیا۔ یہ بھٹو کا عوامی اجتماع سے پہلا خطاب تھا۔ جب بھٹو کو نومبر 1968 میں گرفتار کیا گیا تو ان کے ساتھ جام ساقی سمیت چند طلبہ کو بھی حیدرآباد سے گرفتار کیا گیا۔ انہیں تین ماہ تک زیر حراست رکھا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور پاکستانی بیوروکریسی نے ایوب خان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ فوج نے ایوب خان کو مارچ 1969 میں گھر پر نظر بند کر دیا اور بیس روز بعد باضابطہ طور پر مارشل لا نافذ کر دیا۔ وہ ابھی بھی ان کڑے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=Kdi4CtDTKxo
جام ساقی کو ایک قید کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن پولیس نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی۔ ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں جام ساقی کی بیوی نے 19 جنوری 1979 کو ایک کنوئیں میں چھلانگ مار کر خود کشی کر لی۔ گو جام ساقی کو ایک ترقی پسند سیاسی رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ ایک شاعر اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ ساقی ان کا تخلص ہے۔ انہوں نے شعر لکھنے کا آغاز سکول سے ہی کر دیا تھا۔
مجھے چند سال قبل جام ساقی سے انٹرویو کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس نشست میں ہم نے جن باتوں پر بحث کی وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
زمان خان: آپ مارکسسٹ کیسے بنے؟
جام ساقی: جب میں 16 اکتوبر 1961 کو لیاقت علی خان کی برسی پر طلبہ کی ایک محفل میں تقریر کر رہا تھا تو وہاں ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر موجود تھے جو میرے ترقی پسندانہ خیالات سے بیحد متاثر ہوئے۔ میری ان سے پھر ملاقات برسی کے چند روز بعد ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سوشلزم ان تمام مسائل کو کیسے ختم کر سکتا ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔
زمان خان: آپ نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت کب اختیار کی؟
جام ساقی: میں نے اس جماعت میں 7 جون 1964 کو شمولیت اختیار کی۔
زمان خان: آپ نے اس جماعت کو کیوں چھوڑا؟
جام ساقی: میں 25 دسمبر 1990 کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا سیکرٹری جنرل منتخب ہوا۔ میں نئی سوچ کا نمائندہ تھا لیکن پرانی سوچ رکھنے والے اکثریت میں تھے۔ مثال کے طور پر میں نے یہ تجویز دی کی جماعت کی جڑیں عوام میں پھیلائی جائیں اور عام انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ لیکن میری یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔ میں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ جماعت کا نام تبدیل کیا جائے۔ یہ تمام اختلافات اپنی جگہ لیکن میں نےجماعت کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپریل 1991 تک خدمات انجام دیں۔
زمان خان: اس جماعت کو چھوڑنے کے بعد آپ نے کیا کیا؟
جام ساقی: کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو خیرباد کہنے کے بعد میں نے جمہوری تحریک کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ میں نے 10 دسمبر 1991 کو پنجاب اور سندھ کے صوبوں کی سرحد سے ایک لانگ مارچ کا انعقاد کیا۔ یہ 33 دنوں پر محیط لانگ مارچ تھا۔ یہ سیکیولر پلیٹ فارم کا لانگ مارچ تھا لیکن متعدد شرکا نے قران مجید کی جلدیں اٹھا رکھی تھیں جبکہ بہت سے دوسرے شرکا اپنے ہمراہ گیتا اور بائبل لیکر آئے تھے جبکہ باقی لوگوں کے ہاتھوں میں بلھے شاہ، بابا فرید اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کی تصانیف موجود تھیں۔
زمان خان: لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات کیا تھے؟
جام ساقی: اس وقت سندھ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ تھی۔ اس لئے ہمارا ایک مطالبہ جرائم کا سدباب تھا۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت صورتحال کو بہتر نہیں بنا سکتی تو لوگوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے کہ وہ خود ڈاکوؤں سے نمٹ سکیں۔ ہمارا خیال تھا کہ پولیس صوتحال کو بہتر نہیں بنا سکتی تھی۔ مارچ کے دوران ہم سے کچھ ڈکیتوں نے بھی رابطہ کیا اور ہمیں کھانے کی دعوت دی جسے ہم نے ٹھکراتے ہوئے ان سے جرائم کی دنیا چھوڑنے اور مستقبل میں کبھی بھی جرم نہ کرنے کے وعدے کا تقاضہ کیا۔ پھر انہوں نے ہمیں اجرکیں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن میں نہیں مانا اور اپنے مطالبات دہرا دیے۔ ڈکیتوں نے جواب دیا کہ اگر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو وڈیرے اور پولیس انہیں مار ڈالیں گے۔
زمان خان: آپ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کب اختیار کی؟
جام ساقی: میں نے 1994 میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وزیر اعلیٰ عبداللّٰہ شاہ میرے گھر تشریف لائے اور مجھے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ ابتدا میں میں نے معذرت کر لی۔ وہ دوبارہ تشریف لائے اور اس مرتبہ بینظیر بھٹو کا خط ہمراہ لائے جس میں بینظیر نے مجھ سے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی درخواست کی تھی۔ میں ذوالفقار بھٹو کی بیٹی کو انکار نہ کر سکا۔ مجھے پیپلز پارٹی کی حکومت میں مشیر کا عہدہ دے دیا گیا۔ جب انہوں نے مجھے عہدے کی پیشکش کی تو میں نے پہلے اسے مسترد کر دیا لیکن پھر انہوں نے اصرار کیا کہ انہیں پیپلز پارٹی کی ساکھ مضبوط کرنا تھی۔
زمان خان: آپ نے پیپلز پارٹی میں کیوں شمولیت اختیار کی؟
جام ساقی: کیونکہ میرا ماننا تھا کہ مقبول سیاست کیے بنا ہم عوام کی زندگی میں معنی خیز تبدیلیاں نہیں لا سکتے ہیں۔
زمان خان: پاکستان میں بائیں بازو کی تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟
جام ساقی: اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے ماسکو کی اندھا دھند تقلید کی۔ بائیں بازو کے رہنما اس طرح برتاؤ کرتے تھے جیسے کہ وہ ماسکو یا بیجنگ کے وائسرائے ہوں۔ پھر ہمارے بائیں بازو کے دوستوں نے غیر ضروری طور پر مذہب کو ایک مسئلہ بنا دیا۔ ایک اور وجہ پاکستان میں جمہوریت کی غیر موجودگی اور اس کے نتیجے میں ترقی پسند کارکنوں کو دی جانے والی سزائیں تھیں۔ 1961 میں حسن ناصر کو مار دیا گیا، 1980 میں نذیر عباسی کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی اموات باقی ترقی پسندوں کیلئے پیغام تھیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=lxqqr_SKLV0
زمان خان: آپ پاکستان میں دائیں بازو کی تحاریک کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جام ساقی: لوگوں کو قیادت فراہم کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ وہ اس کیلئے تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی میں عوامی سیاست کرنے کے میرے ذاتی تجربے کی روشنی میں میرا ماننا ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو پیپلز پارٹی سے منسلک ہو جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ پیپلز پارٹی کیلئے زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی واحد بڑی اور عوامی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس صورتحال کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو اپنے اندر بہتری لانی چاہیے۔
زمان خان: آپ نے پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ساتھ کب اور کیوں وابستہ ہوئے؟
جام ساقی: میں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ 1994 میں وابستگی اختیار کی۔ میں 2002 میں اس کی کونسل کا رکن منتخب ہوا۔ میرا ماننا ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں بالخصوص سندھ میں بسنے والے مزارعین کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ یہ ملک میں موجود واحد پلیٹ فارم ہے جس کا تشخص مجروح نہیں ہوا ہے۔ تمام جمہوری جماعتیں اور فورم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا احترام کرتے ہیں۔ بلکہ معاشرے میں موجود تمام جمہوری عناصر کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم پر یکجا ہو جانا چاہیے کیونکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=E1EyqBSrK7s
زمان خان: حال ہی میں آپ پر ناجائز اسلحہ رکھنے اور اغوا برائے تاوان کے جرائم کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ آپ کا مؤقف کیا ہے؟
جام ساقی: یہ مقدمہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کراچی کے دفتر میں ایک ہندو عورت آئی جس کا نام دھنو تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے بیٹے اتم کو سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم کے بھتیجے نے اغوا کر لیا ہے۔ اس عورت کے مطابق اس کے بیٹے اتم نے 2002 میں اغواکاروں میں سے ایک کو اس وقت زخمی کر دیا تھا جب انہوں نے اس کی بیوی اور بہن کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے حقائق کی جانکاری کیلئے ایک ٹیم تھر کے گاؤں کھیٹ لاری روانہ کی جہاں یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ وہاں لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ٹیم کے ساتھ تعاون کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ مجھے احساس تھا کہ وزیراعلیٰ جو خود اس علاقے سے تعلق رکھتا ہے یہ اقدام برداشت نہیں کرے گا۔ وہ کسی کو بھی اپنے گاؤں کا دورہ کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اتم کے خاندان نے واقعہ کی تفصیلات بتانے کے بعد یہ کہا کہ انہیں اربابوں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ٹیم جس کے اندر میں بھی بطور ممبر شامل تھا اس نے ایک رپورٹ تیار کر کے کراچی بھیج دی۔ ارباب کو یہ پسند نہیں آیا۔" جام ساقی نے کھیٹلاری میں آنے کی ہمت کیسے کی؟" مجھے آتشیں اسلحہ رکھنے کے جھوٹے مقدمے میں نامزد کر دیا گیا۔ میری گرفتاری پر شور مچ گیا۔ پیپلز پارٹی نے ایک جلوس نکالا اور حکومت کو تنبیہہ کی کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو نہ بگاڑے۔ اس لئے مجھے فوری طور پر رہا کر دیا گیا۔ اگلے دن 31 مئی کو پولیس میری غیر موجودگی میں پھر میرے گھر پر آئی۔ انہوں نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ 4 جون کو پولیس میرے گھر پھر آئی اور میری بیوی کو گرفتار کر لیا۔ ایک بار پھر اس بات پر شور مچ گیا۔
زمان خان: اغوا برائے تاوان کے مقدمے کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟
جام ساقی: میری سالی کے سابقہ خاوند کو حکومت نے اس مقدمے میں استعمال کیا ہے۔ اس نے الزام عائد کیا ہے کہ ہم نے اس کے بچے کو جو کہ میری سالی سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا اغوا کیا ہے۔ ان دونوں کی شادی ایک سال تک برقرار رہی، اور پھر دونوں نے اس شرط پر اپنی راہیں جدا کر لی تھیں کہ میری سالی حق مہر کی رقم کا مطالبہ نہیں کرے گی اور بدلے میں بچہ اس کے پاس رہے گا۔ وہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ سکھر میں آرام سے رہ رہا ہے۔ کسی نے بھی اسے اغوا نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس کیلئے کسی رقم کا تقاضہ کیا ہے۔