وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 23 مظاہرین کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفاقت عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران حمزہ شفاقت نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین کے خلاف تمام الزامات کے تحت درج کیا گیا مقدمہ واپس لے لیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے بیان کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے مظاہرین کے خلاف ضمانت کی درخواست نمٹا دیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد انتظامیہ کے بیان کے بعد تمام درخواستیں غیر مؤثر ہوگئیں۔ مذکورہ معاملے پر سماعت ہوئی تو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جمہوری حکومت سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ اظہار رائے پر قدغن لگائے گی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ منتخب جمہوری حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگا سکتی، تنقید سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ آئینی عدالتیں عوام کے آئینی حقوق کا تحفظ کریں گی، یہ پاکستان ہے بھارت نہیں، ہر کسی کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران اسلام آباد ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیر کا کہنا تھا کہ ملک 20 سال سے دہشتگردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور مظاہرین کا 'خفیہ ایجنڈ' تشویش ناک تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی ریاست کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ریاست کے خلاف بات کرنے اور نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف بھی تحریری حکم نامہ لکھ دیں۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ریاست یا کوئی ادارہ اتنا کمزور نہیں کہ کسی کے کہنے سے کچھ ہو جائے، 25 افراد کے احتجاج سے کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے تمام درخواستیں نمٹا دیں گئیں۔
یاد رہے کہ منظور پشتین کو 27 جنوری کی علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر شہر کی سینٹرل جیل بھیج دیا تھا۔ اس گرفتاری کے اگلے روز یعنی 28 جنوری کو اسلام آباد پولیس نے پی ٹی ایم رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم اور اے ڈبلیو پی کے متعدد کارکنان کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے گروپ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
بعد ازاں 30 جنوری کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے زیر حراست کارکنوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ ہے کیونکہ دوران احتجاج مظاہرین نے حکومت اور فوج مخالف نعرے بازی کی۔ تاہم جب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آیا تھا تو 2 فروری کو عدالت عالیہ کو بتایا گیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں بغاوت سے متعلق دفعہ 124 اے کو ختم کردیا گیا لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کی دفعہ 7 کو شامل کر لیا گیا۔ جس کے بعد 3 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے کارکنان کو ضمانت بعد از گرفتاری دی تھی۔
بعد ازاں منگل 11 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حراست میں لیے گئے مظاہرین کے خلاف بغاوت کے الزامات شامل کرنے کا حکم دینے والے مجسٹریٹ سے وضاحت طلب کر لی تھی۔