دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ میں ان ماؤں بہنوں، بیٹیوں کی بات سن کر یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر کوئی ہمارا پیارا آنکھوں کے سامنے اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے اور خود آپ اسے مٹی کے سپرد کر کے آتے ہیں تو رہتی زندگی تک اس کی یاد اور تکلیف انسان کے دل سے نہیں جاتی لیکن اس انسان کا غم کیا غم ہوگا جو روز صبح اٹھ کر اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہیں اور رات کو سوتے وقت ان کی آنکھیں منتظر رہتی ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ اگر کسی بچے کو یہ معلوم نہ ہو کہ ہم یتیم ہیں یا ہمارے والد زندہ ہیں، جس ماں کو یہ معلوم نہ ہو کہ میرا بیٹا زندہ ہے یا مر گیا،کسی بیوی کو یہ پتہ نہ ہو کہ وہ بیوہ ہے یا اس کا شوہر زندہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات کرنے کو کی جاسکتی ہے لیکن ان متاثرین کے دلوں کے کیا احساسات ہیں اور کئی سالوں سے ان کے دلوں پر کیا قیامت گزر رہی ہے، اتنے سالوں سے یہ لوگ روزانہ اسی کرب سے گزرتے ہیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے رہنے والے افراد ہیں اور یہ اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہیں۔ مجھے اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پہلے انسان کی باتیں بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور مجبوریاں سامنے آجاتی ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا انسان کی مجبوریاں اس کے فرض سے بڑی ہوتی ہیں، چاہے آپ سیلیکٹڈ ہیں، آپ کو جس طرح بھی اقتدار میں بٹھایا گیا ہے لیکن ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ریاست کا فرض ہے، یہ آپ کا فرض ہے کہ اگر آپ ان کے پیاروں کو بازیاب نہیں کرسکتے تو آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ جن کے پیارے اس وقت ٹارچر سیلز میں ہیں انہیں بتادیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے اداروں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں لیکن میں ان سے بھی یہی کہتی ہوں کہ آپ کی بھی مائیں بہنیں اور اولادیں ہیں، خدا کے واسطے انہیں یہ بتادیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مر گئے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کریں گے رو دھو کر چپ ہوجائیں گے لیکن جو قیامت روز ان کے دل پر گزرتی ہے اسے تو قرار آئے گا۔
مریم نواز نے کہا کہ میں عمران خان کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس یہاں سے فاصلے پر نہیں شاید 5 منٹ کا راستہ ہے اور ان بچیوں نے مجھے بتایا کہ یہ ایک ہفتے سے یہاں موجود ہیں تو آپ نے ایجنسیز کو جواب نہیں دینا، آپ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں، یہ 22 کروڑ عوام آپ کی ذمہ داری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، آپ کے اختیار میں کچھ نہیں لیکن آپ ان کے سروں پر ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں یا آپ کو کہنے کے لیے صرف یہ بات ملی ہے کہ میں لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گا، یہ لاشیں نہیں زندہ لاشیں ہیں لیکن جیتے جاگتے لوگ ہیں، آئیں اور ان کی بات سنیں۔