منگل 16 فروری کو سندھ کی دو اور بلوچستان کی ایک صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا۔ یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی دونوں نشستوں سے 2018 کے انتخابات میں جیتی تھیں اور بلوچستان کے ضلع پشین کی سیٹ بھی متحدہ مجلسِ عمل کے امیدوار نے ہی جیتی تھی لیکن ضمنی انتخاب کے نتائج اس کے باوجود حکمران جماعتوں کے لئے انتہائی بوکھلا دینے والے ہیں۔
سندھ میں کراچی کی ملیر سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 88 پر انتخاب ہوا جب کہ سانگھڑ سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پی ایس 43 کے لئے انتخاب لڑا گیا۔ کراچی کی یہ سیٹ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ بلوچ نے جیتی تھی۔ ان کے مخالفین میں پاکستان تحریکِ انصاف کے محمد رضوان خان نے 16 ہزار 386 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ غلام مرتضیٰ بلوچ نے 22 ہزار 561 ووٹ لے کر فتح اپنے نام کی تھی۔ دیگر جماعتوں میں تحریکِ لبیک پاکستان کے رضوان احمد نے 7694 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سید عبدالحسن نے 5207 اور مسلم لیگ نواز کے محمد احسان نے 4961 ووٹ حاصل کیے تھے۔
لیکن قریب ڈھائی سال بعد 2021 میں ہوئے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی نے تو اپنے ووٹوں کی تعداد نہ صرف برقرار رکھی بلکہ جنرل الیکشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس کے ووٹوں کی تعداد بڑھ کر 24 ہزار 251 ہو گئی جو کہ جنرل انتخابات میں لیے گئے ووٹس سے قریب 1600 ووٹ زیادہ ہیں لیکن دوسری جانب دوسرے نمبر پر رہنے والی پاکستان تحریک انصاف اس بار دوسری پوزیشن بھی برقرار نہ رکھ سکی اور اس کی جگہ تحریک لبیک پاکستان نے لے لی۔ تحریک لبیک پاکستان نے الیکشن میں 6090 ووٹ حاصل کیے جو کہ پچھلے الیکشن سے کم ہی ہیں۔ تحریکِ انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔ اس کے ووٹس کی تعداد کم ہو کر 4870 رہ گئی ہے جو کہ جنرل انتخابات میں لیے گئے ووٹوں سے ساڑھے 11 ہزار ووٹ کم ہے۔
دوسری جانب ضلع سانگھڑ میں ہونے والے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے جام مدد علی خان نے 2018 انتخابات میں 44 ہزار 737 ووٹ لیے تھے اور یہ اس حلقے سے فاتح ٹھہرے تھے۔ ان کے مقابلے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے جام ذوالفقار علی نے 28 ہزار 488 ووٹ حاصل کیے تھے۔ لہٰذا اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی فتح کا مارجن 16 ہزار سے کچھ زیادہ تھا۔ لیکن ضمنی انتخاب میں تو صوبے کی حکمران جماعت نے مخالف کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس حلقے میں ایک تو PTI اپنے اتحاد سے باہر آ کر سولو فلائٹ پر گئی اور اس کا نقصان بھی اٹھایا کہ جنرل انتخابات میں لیے گئے 28 ہزار سے زائد ووٹوں کے مقابلے میں اسے اس بار محض 5230 ووٹ ہی نصیب ہو سکے جب کہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا جہاں اس نے اپنے گذشتہ انتخابات میں لیے گئے ووٹوں سے قریب 500 ووٹ زیادہ لے کر 45 ہزار 240 ووٹوں پر اپنی گنتی مکمل کی۔
کہا جا سکتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں صوبے کی حکمران جماعت کا پلڑا عموماً بھاری رہتا ہے لیکن ایسا پشین میں دیکھنے میں نہیں آیا جہاں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار نے 24 ہزار 965 ووٹ حاصل کیے جو کہ اس حلقے میں 2018 انتخابات کے نتیجے کے مقابلے میں قریب 14000 ووٹ زیادہ تھے۔ یہاں سے 2018 میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سید محمد افضل آغا نے انتخاب لڑا تھا اور 10 ہزار 810 ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد سید عزیز اللہ آغا کو جمعیت علمائے اسلام کا ٹکٹ دیا گیا تھا جنہوں نے یہاں پر صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار عصمت اللہ ترین کو قریب 18 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی۔ یہاں پر اپوزیشن جماعت نے انتخابی معرکہ مارا۔
کہا جا سکتا ہے کہ ضمنی انتخاب ایک دو حلقوں کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر ملک بھر کی صورتحال کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ لیکن یہ نتائج یقیناً ایک عام آدمی کی سوچ کا پتہ دینے کے لئے کافی ہیں جب جیتنے والے امیدوار کو عام انتخابات کی نسبت زیادہ ووٹ مل رہے ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل PTI اور BAP کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر اسی قسم کی صورتحال پنجاب میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں مسلم لیگ نواز کی دو سابقہ جیتی ہوئی نشستوں پر اس کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس بار مل کر انتخابات لڑ رہی ہیں اور حال ہی میں مریم نواز ڈسکہ گئیں تو یہاں سٹیج پر ان کے ساتھ مسلم لیگ نواز کی قیادت ہی نہیں عوامی نیشنل پارٹی کے افتخار حسین اور پیپلز پارٹی کے قمر الزماں کائرہ بھی موجود تھے۔ یہ انتخابات مستقبل کی انتخابی مہم کا ایک نقشہ بھی پیش کر رہے ہیں جہاں اسٹبلشمنٹ کی B ٹیم سمجھی جانے والی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف PDM کی جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں گی۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ عمران خان اس کے بعد مکمل طور پر کھیل سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان کی حکومت کے ابھی ڈھائی سال باقی ہیں اور مستقبل قریب میں قبل از وقت عام انتخابات کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی کو بہتر کر کے بھرپور مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن فی الحال نظر یہی آتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کی حمایت و تائید کے ساتھ PTI کے لئے انتخابی میدان میں ناقابلِ شکست ہوتی جا رہی ہیں۔