نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے فہد حسین کا کہنا تھا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کے سیاسی معاملات بڑی تیزی کیساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ خالی ہوائی فائر نہیں ہو رہا۔ آج اپوزیشن پراعتماد ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ نمبرز گیم ان کے حق میں جا رہی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ آخر میں ایسا کچھ بھی نہ ہو کیونکہ پاکستانی سیاست کی کایا پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں اسلام آباد کا ماحول تیزی کیساتھ تبدیل ہوا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے بلکہ اتحادیوں نے بھی کم از کم ملنے کی حد تک اس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ یہ اپوزیشن کی جانب سے خوامخواہ کا دبائو ڈالنے کی کوشش ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں، کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن ذرائع کنفرم کر رہے ہیں کہ ان کے پاس 163 ووٹ ہیں۔ یعنی انھیں حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کیلئے 9 لوگ مزید چاہیں۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر انھیں حکومت کیخلاف ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانا ہے تو انھیں احتیاط برتتے ہوئے 20 سے 22 لوگ چاہیں۔ اب اتنی زیادہ تعداد میں اراکین اسمبلی کہاں سے آئیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری گیم کا پانچ لوگوں کو علم ہے جن میں شہباز شریف بھی شامل ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بات اگر تحریک عدم اعتماد تک پہنچی ہے تو اس میں صرف وزارتوں کی رنجش نہیں بلکہ اس میں دیگر عوامل کا کردار بہت زیادہ ہے۔ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ اس کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ کا امکان پیدا ہو رہا ہے وہ وزارتوں کی بندر بانٹ کرکے دوبارہ جڑ جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں حکومت تشخیص ہی نہیں کر پا رہی کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔
فہد حسین کا کہنا تھا کہ مجھے ایک سیاستدان نے دلچسپ بات کہی تھی کہ ہمارے یہاں ایک واقعہ ساری کی ساری سیاست کو گھما کر رکھ دیتا ہے۔ اکتوبر 2021ء میں یہی ہوا جب تمام فارمولے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جہانگیر ترین کو جسے سسٹم نے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا، آج کنگ میکر بن چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین گذشتہ کچھ عرصے سے خاموش ہیں، ان کی جانب سے بیان بازی نہیں کی جاتی لیکن وہ پوری طرح سے ایکٹو ہیں۔ ان کی سیاست ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے کہ وہ کس سمت جائیں گے؟ آیا وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں گے یا کنگ میکر؟ انتہائی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ خود نااہل ہو چکے ہیں۔ اگر ان کی نااہلی ختم ہوئی تو پھر نواز شریف کی بھی ہونی ہے۔ جہانگیر ترین کا فیصلہ اب صرف تحریک عدم اعتماد کیلئے نہیں ہوگا۔ وہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے کو بھی ذہن میں رکھیں گے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اپنا فیصلہ کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی کمزور ترین سٹیج پر پہنچ چکی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ کسی نہ کسی بہانے میڈیا کو اپنے دبائو میں لانا چاہ رہی ہے۔ لیکن اقتدار کے پہلے تین سالوں میں پی ٹی آئی حکومت بہت مضبوط تھی اور تمام چیزیں اس کے حق میں تھی، وہ تب بھی میڈیا کیخلاف پابندی لگانے کا کام نہیں کر پائے تھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ کل شہباز شریف کے حوالے سے آنے والا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن کیا اس سے پاکستان کی سیاست جس رخ چل پڑی ہے، وہ رک جائے گی؟ تو ایسا نہیں ہوگا۔ گذشتہ چند مہینوں ملک کی سیاست نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس میں بہت سارے عوامل نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ اکتوبر 2021ء میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع نے ڈالا۔ اس کے بعد دیگر چیزیں اس میں شامل ہوتی گئیں۔ اب پی ٹی آئی حکومت کی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔ اگر کل شہباز شریف کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ حکومت کیخلاف جاری کام کو تھوڑی بریکیں لگیں لیکن یہ کہنا کہ تمام کا تمام سسٹم دوبارہ ان کے حق میں پلٹ جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔