صحافیوں سے گفتگو کے دوران نواز شریف سے سوال کیا گیا کہ پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی مبینہ آڈیو لیک کے بعد ان کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا جانا چاہیے؛ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس پر ایکشن ہوگا اور ان کے خلاف یہ کیس بھیجا جائے گا۔
نواز شریف نے جواب دیا کہ ضرور بیجنا چاہیے۔ یہ کوئی پوچھنے والا سوال ہے؟
نواز شریف نے کہا کہ جو انہوں نے کیا ہے، تو اگر یہ بھی نہیں کرنا کہ ان کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا جائے تو پھر کیا کرنا ہے؟ اگر ان کا نہیں بھیجنا تو پھر میرا نام بھیج دیں۔ "اے وی میرے تے پا دیو"
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس کا الزام بھی مجھ پر دھر دینا چاہیے۔ پہلے ہی اتنے الزام لگائے جا چکے ہیں، یہ بھی ایک لگ جائے گا تو کیا ہو جائے گا؟
آڈیو لیکس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین باتیں ہیں۔ اس سے زیادہ سنگین باتیں کسی سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں اور کیا ہو سکتی ہیں؟
"مظاہر علی اکبر نقوی جیسے کرداروں کی وجہ سے پاکستان آج اس مقام پر پہنچا ہے۔ ملک لڑھک رہا ہے، سنبھلنے کا نام نہیں لیتا۔ یہ بہت ہی افسوسناک ہے، بہت سنگین ہے، اس کا بھرپور نوٹس لیا جانا چاہیے"۔
اس جواب پر موقع پر موجود صحافیوں اور ن لیگ کے حامیوں کی ہنسی نکل گئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان کے چار سالوں کا مقابلہ میرے چار سالوں کے ساتھ کیا جائے۔ کس کے دور کے حالات اچھے تھے؟ روٹی کب سستی تھی؟ گھی کب سستا تھا؟ چینی کب سستی تھی؟ سبزیاں کب سستی تھیں؟ آٹا کب سستا تھا؟ پٹرول کب سستا تھا؟ بجلی کب سستی تھی؟ لوڈ شیڈنگ کا کب خاتمہ ہوا؟ سڑکیں، موٹرویز کب بنیں؟ پاکستان ایٹمی طاقت کب بنا؟ جواب قوم کو مل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں پچھلے پانچ، چھ سالوں سے مطالبہ کرتا آ رہا ہوں کہ گینگ آف 5 کا احتساب ہونا چاہیے۔ میرے مؤقف میں کوئی فرق نہیں آیا۔ میں اپنے اصول پر ڈٹا ہوا ہوں۔ جب تک ہم ان اصولوں پر ڈٹے رہیں گے، پاکستان کی بہتری کے کچھ آثار نظر آتے رہیں گے۔
ان لوگوں نے مجھ پر جعلی کیسز ڈالے۔ اس Gang of 5 نے جو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار ہے میرے ساتھ اور ملک کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہی کرداروں کی وجہ سے آج پاکستان کے حالات اس قدر مخدوش ہیں کہ سنبھلنے میں نہیں آ رہے۔ عام آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات قابو میں نہیں آ رہے۔ بجلی اور روٹی قابو میں نہیں آ رہیں۔ سبزیاں اور دالیں نہیں قابو آ رہیں۔ میرے دور میں سبزیاں دس، دس روپے کلو ملتی تھیں، آج انسان پاکستان میں روٹی نہیں کھا سکتا۔