راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شوکت کمال ڈار نے رات 10 بجے فیصلہ سنایا جس پر پولیس نے تمام مجرموں کو حراست میں لے لیا اور تین بسوں میں ڈال کر پولیس اور ایلیٹ فورس کے کڑے پہرے میں اٹک جیل لے گئے۔
عدالت نے ملزمان پر ایک کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ اور ان کی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
پنڈی گھیب پولیس نے 24 نومبر 2018 کو تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم رضوی کی گرفتاری کے بعد ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، پولیس ملازمین کو زخمی، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور دہشتگردی سمیت مختلف الزامات کے تحت خادم رضوی کے بھائی امیر حسین اور ان کے بیٹے محمد علی سمیت 87 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
بعدازاں مجرموں کی ضمانت ہوئی تو ایک ملزم اعزاز الحق بیرون ملک فرار ہوگیا تھا جس پر عدالت نے مفرور ملزم کے ضمانتی سے ایک لاکھ روپے جرمانہ وصول کر کے ملزم کو اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
عدالت نے 13 ماہ زیرِسماعت رہنے والے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر مختلف الزامات میں ملوث ہر مجرم کو مجموعی طور پر 55، 55 سال قید سخت اور 2 لاکھ 35 ہزار روپے جرمانہ و عدم ادائیگی جرمانہ پر 32 ماہ مزید قید دینے کا حکم دے کر مجرموں کی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد بھی بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے امیر حسین رضوی، ان کے صاحبزادے محمد علی اور دیگر 2 مجرموں قاری مشتاق اور گلزار احمد کو اسلحہ برآمد ہونے کے جرم میں علیحدہ سے 2، 2 سال قید اور پچاس، پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مجرموں کو مجموعی طور پر 146 سال سے زائد مزید سزا کاٹنا ہوگی۔