نوجوان صحافی اظہارالحق کو سوشل میڈیا پر ریاست مخالف پوسٹس کرنے اور مشرف کو آئین شکن کہنے پر لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابقحکومت ، سابق صدر پرویز مشرف اور ریاستی اداروں پر تنقید کے الزامات میں گرفتار نوجوان صحافی اظہار الحق واحد کو ضلع کچہری میں پیش کردیا گیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر عرفات نے صحافی اظہار الحق کے ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کی، وکیل ایف آئی نے کہا کہ ملزم صحافی اظہار الحق سے مزید تفتیش کرنی ہے جسمانی ریمانڈ دیاجائے۔
اظہار الحق کے وکیل میاں داؤد ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے صحافی اظہار الحق سے سب کچھ برآمد کر لیا ہے، موجودہ حالات میں آزادی اظہار رائے کو دبایا جارہا ہے۔
ایڈوکیٹ میاں داؤد کا کہنا تھا کہ اگرحکومت اور مشرف پر تنقید جرم ہے تو آدھا پاکستان گرفتار کیا جانا چاہیے،ایف آئی اے نے حکومت کے دباؤ پر ریاست مخالف مواد پوسٹ کرنے مقدمہ درج کیا ہے، ایف آئی اے نے ریاست مخالف مواد کا ایک بھی جز مقدمے میں نہیں لکھا۔
اظہار الحق کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے کیخلاف ہے، موجودہ حالات میں صحافی اظہار الحق کے جسمانی ریمانڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے پیکا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جبکہ ایف آئی آر کے مطابق اظہارالحق نے حکومت اور سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف پر سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید کی اور اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی وائرل کیں جن میں قومی ترانے میں قابل اعتراض ردوبدل کیا گیا جب کہ اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد بھی پھیلایا گیا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر نوجوان صحافی کا کہنا تھا کہ میں اپنے اداروں کی عزت اور احترام کرتا ہوں۔ تاہم، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح میری زبان بند کر لیں گے تو یہ ناممکن ہے۔
دوسری جانب صحافتی برادری کی جانب سے نوجوان صحافی کی گرفتاری کی مذمت کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے صحافیوں اور میڈیا کو سخت سنسرشپ کا سامنا ہے۔