دوران کیرئیر انہوں نے دہشت گردی کے بہت سے واقعات کو کور کیا جن میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو پر حملہ، لال مسجد آپریشن اور افغانستان میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے دوران رپورٹنگ سرفہرست ہیں۔ اب تک وہ قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
اب وہ بی بی سی نیوز عربی، آئی وی ایل پی، پاکستان ٹیلیوژن، الجزیرہ اور دی ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ وابستہ ہیں اور بطور صحافی، تجزیہ نگار، اور امور خارجہ جیسے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
اپنے بارے میں بات ہوئے سمیرا خان نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک پختون اور سید گھرانے سے ہے۔ وہ اسلام آباد کی رہائشی ہیں۔ شروع میں انہوں نے کامرس کو پڑھا اور پھر 2004 میں وہ صحافت سے وابستہ ہوگئیں۔ انہوں نے سب سے پہلے خیبر نیوز کے ساتھ رپورٹنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے ڈھائی سال بعد پاکستان ٹیلیوژن سے وابستہ ہوئیں اور پاکستان میں جتنے بھی ذہشت گردی کے واقعات ہوئے ان میں اکثر کو انہوں کور کیا۔
اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پختون ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول کافی سخت تھا۔ ان کے والد کا آبائی گاؤں تھاکوٹ ہے۔ ان کے خاندان میں عورت کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنے تعلیم کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ لیکن حیرت اور خوشی کی بات یہ تھی کہ گھر کے تمام مردوں نے بہت سپورٹ کیا لیکن خواتین ڈر رہی تھی کیونکہ وہ صحافت کو شوبز کا ہی حصہ سمجھتی تھیں۔ پھر گھر کے بڑوں نے سمجھایا کہ صحافت بچیوں کیلئے ایک بہت قابل عزت معزز پیشہ ہے۔ بہت وقت لگا ان ساری چیزوں کو بدلنے میں اور اب انہیں مجھ پر بہت فخر ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کی ہمت بڑھاتے ہیں کہ وہ بھی پڑھیں اور خوب آگے بڑھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں لڑکیاں بہت کم ہیں اس لئے بیٹیوں کو بہت محبت دی جاتی ہے۔ یہ ایک غلط فہمی لوگوں نے پھیلا دی ہے کہ پٹھان بس اپنے بیٹوں سے محبت کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے بلکہ ان کے آبائی گاؤں میں بیٹی کی پیدائش پر باقاعدہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نوزائیدہ بچی کو بالکل دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔ اسے سب بڑوں سے منہ دکھائی دی جاتی ہے۔ اسے گوٹہ کناری والے کپڑے پہنا کر اس کے ماتھے پہ ٹیکا لگایا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے تو انہیں یہ سب عجیب لگتا تھا اور انہوں نے اپنی وہ تصویریں بھی چھپا دیں مگر اب یہ سب دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم بیٹیاں اپنے خاندان کیلئے کتنی اہم ہیں اور یہ سب دیکھ کر خون بڑھتا ہے۔
سمیرا خان کا کہنا تھا کہ والدہ کا انتقال نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ آپ کی زندگی کا کوئی بھی دکھ ہو، کتنا بھی بڑا صدمہ ہو مگر ماں کو کھونے سے بڑا دکھ کوئی نہیں ہو سکتا۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی نعمل البدل نہیں ہے
اپنی زندگی کی ایک ایسی بات جو انہوں نے سب سے الگ کی ہو اس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ افغانستان گئیں اور انہیں یہ بتایا گیا کہ پاکستان سے صرف وہی ایک خاتون صحافی ہیں جنہوں نے افغانستان کو کور کیا۔ یہ ان کے لئے قابل فخر لمحہ تھا۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے نہیں بلکہ ایک پاکستانی خاتون ہونے کی حیثیت سے، یہ چیز میرے لئے انتہائی قابل فخر تھی۔ پروفیشنل زندگی میں انہیں چیلنج لینا پسند ہے اور وہ ہر وہ کام کر گزرتی ہیں جس سے کبھی ان کے مرد ساتھی بھی گبھراتے ہیں۔ یہ ہمت اور بہادری ان کے پاس اللہ کی عطا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اقتدار دیا جائے وہ سب سے پہلے طبقاتی فرق اور غربت کو ختم کریں گی اور اس کے علاوہ کرپشن کا خاتمہ کرکے انصاف کی فراہمی ہر شخص کیلئے یقینی بنائیں گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ہاں بڑی تیزی سے مڈل کلاس طبقہ ختم ہو کر لوئر مڈل کلاس طبقے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ غریب غریب سے غریب تر اور امیر امیر سے امیر ترین ہوتا جارہا ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ انسانی اقدار بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ امیر کو لگتا ہے کہ میرے نیچے کام کرنے والے سب میرے غلام ہیں اور میں فقط حکمرانی کیلئے پیدا ہوا ہوں۔ ابھی بھی اگر دیکھیں کہ لوگ اسی عمران خان سے اتنے ناراض ہیں کہ لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ مڈل کلاس طبقہ اپر مڈل کلاس میں تبدیل ہو جائے گا اور لوئر مڈل کلاس طبقہ مڈل کلاس طبقے میں تبدیل ہو جائے گا ۔ یعنی غربت کی لائن سے تناسب کے لحاظ سے ہم کافی اوپر آجائیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں، تاجر اور صنعت کار معاشی لحاظ سے مزید مضبوط ہو گئے جبکہ غریب حالات کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔
زندگی پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ زندگی ایک رولر کوسٹر ہے۔ وہ لوگ بہت بدنصیب ہیں جن کے لئے زندگی بہت آسان ہے۔ زندگی میں سب سے زیادہ سیکھنے والے وہی لوگ ہیں جن کی زندگی میں نشیب وفراز آئے اور زندگی کو ایسا ہی ہونا چاہیے جس میں اتار چڑھاؤ ہوں۔ اگر اپ کو پلیٹ میں رکھ کر سب مل جائے تو آپ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اب کھانا کیا ہے اور پھر آپ کو ایک کھلانے والا بھی چاہیے ہوتا ہے۔ اس لئے زندگی کو ہمیشہ چیلنجنگ ہونا چاہیے۔
مردوں کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ اپنے کام پر رکھیں محنت کرتے ہوئے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اگر کوئی لڑکی ان سے آگے بھی جارہی ہے تو یہ ہرگز نہ سوچیں کہ اس کو یہ کام سہولتیں اس کے کام کی وجہ سے نہیں بلکہ اسکی جنس کی وجہ سے ملی ہیں کیونکہ آج کل اکثر مرد ایسا سوچتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک لڑکی کام میں ان سے آگے جارہی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ یہ لڑکی تو شارٹ کٹس سے آگے جا رہی ہے۔ وہ یہ ایمان رکھیں کہ آپ کے حصے کا رزق آپ کو پتھر پھاڑ کر بھی دیا جائے گا۔ اس سوچ کے ساتھ ہم مقابلہ بازی میں نہیں پڑتے اور نہ ہی اپنے قریبی لوگوں سے رشک یا حسد میں مبتلا ہوتے ہیں۔
لڑکیوں کیلئے پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہراس کرے تو آگے بڑھ کر اقدام کریں اور کبھی بھی اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور اس جگہ سے فوراً نکل آئیں۔ اگر آپ کا رزق وہاں پر ہے تو مل جائے گا، نہیں تو یقیناً کوئی بہتر راستہ مل جائے گا۔ خود کی اس سب کی نظر کرکے بعد میں رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو ہراساں کرے اس وہیں پر دو تھپڑ لگائیں۔ اس جگہ سے نکلیں تو کم از کم آپ کا دل ٹھنڈا ہو جائے گا اور آپ ہمشہ سر اٹھا کر چل سکیں گی۔