ٹویٹر پر صدارتی نظام کے بارے میں مہم بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے آئین کو بار بار معطل کرنے اور اسے منسوخ کرنے والے لوگ ہیں۔ جن کے نزدیک آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ جب چاہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام''خبر سے آگے'' میں اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ کمزور کیلئے اس کیخلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ہائبرڈ نظام ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا سکے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ یہ آئین ہم نے ملک دولخت کرکے حاصل کیا تھا۔ پاکستان میں ایسا کوئی ماحول نہیں کہ تمام اکائیاں کسی نئے نظام پر متفق ہو جائیں۔ یہ آئین ہی پاکستان کی تمام اکائیوں کو اکھٹے رکھنے کا واحد آپشن ہے۔ ایسی باتیں کرنے والے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نہیں بلکہ پی ٹی آئی میں لوگ عمران خان کی جگہ لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی میں جب عمران خان کے متبادل بارے گفتگو ہونا شروع ہونا شروع ہوئی تو فواد چودھری نے اس سے توجہ ہٹانے کیلئے بیان داغ دیا کہ شریف قیادت کے بعد 4 افراد مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ن لئگ کی ساری فرنٹ لائن قیادت جیل یاترا کر چکی ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات جیتنے والے تمام 83 ایم این اے آج بھی نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ لوگ نواز شریف کیساتھ اس کے نظریے کی وجہ سے ہیں۔ اس لئے بغاوت ہونا بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ سیاست میں زندہ رہنے کیلئے بغاوت کر رہے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اس جماعت میں رہتے ہوئے ان کا اراکین اسمبلی بننا ناممکن ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے 25 اراکین قومی اسمبلی آئندہ انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے کر نہیں جیت سکتے۔
پروگرام میں شریک گفتگو مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اصل بغاوت ن لیگ میں نہیں بلکہ پی ٹی آئی میں ہے۔ شاہد خاقان عباسی، احسن قبال، مفتاح اسماعیل اور سردار ایاز صادق لیگی قیادت کیخلاف نہیں جا سکتے۔ حکمران جماعت کی جانب سے ان کے بارے میں صرف کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔ ملکی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ سب باتیں کی جا رہی ہیں۔
ماہر معاشیات فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ حکومت کا خسارہ بڑی تیزی سے چڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آپ سے اخراجات تو کنٹرول نہیں ہونگے اب خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے تو منی بجٹ لائیں۔
فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کبھی اشیائے ضروریہ یا ڈبل روٹی کی قیمتیں بڑھانے کا نہیں کہتی۔ اصل میں فقدان حکومتی پالیسی میں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا اثر تمام چیزوں پر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ پیٹرول کے اوپر 30 روپے فی لیٹر ٹیکس لگایا جائے گا ہم نے اسی وعدے کی بنیاد پر 500 ملین ڈالر وصول کئے تھے۔ تاہم ن آئی ایم ایف اسی وجہ سے اب زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر وعدے کی تکمیل چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کئی ممالک کیساتھ آئی ایم ایف کے معاہدے پڑھے ہیں کسی میں عالمی ادارے کی جانب سے چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کا نہیں بلکہ خسارہ کم کرنے کا کہا جاتا ہے۔