ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمرجاوید باجوہ کے ایف بی آر سے ڈیٹا لیکس کیس کی سماعت ہوئی۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ملزم شاہد اسلم کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کے روبرو عدالت میں پیش کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شاہد اسلم تسلیم کرتے ہیں کہ ایف بی آر سے مختلف آفیشلز کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملزم کے موبائل ڈیٹا سے اس مقدمے میں گرفتار دیگر ملزمان کے ساتھ رابطہ کنفرم کرنا ہے۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ دو دن میں ملزم نے بتایا کہ وہ ماضی میں بھی ایف بی آر سے ڈیٹا لیتے رہے ہیں تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شخصیات کون تھیں جن کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔
ملزم کے وکیل میاں علی اشفاق نے تفتیشی افسر کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ محض مفروضوں پر ان کے موکل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ شاہد اسلم کے خلاف زبانی کلامی ثبوت دیا گیا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف عدالت میں تو موجود نہیں اور ان کا بیان بھی نہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
عدالت نے چار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے کے مطابق شاہد اسلم تین روز ایف آئی اے کی کسٹڈی میں تھے لیکن تفتیش آگے بڑھتی نہیں دکھائی دی۔ پراسیکیوشن نے خود کو شاہد اسلم کے لیپ ٹاپ اور موبائل تک تفتیش میں محدود رکھا ہے۔ پراسیکیوشن نے جسمانی ریمانڈ لیپ ٹاپ اور موبائل سے فرانزک ڈیٹا نکلوانے کے لیے مانگا تھا تاہم دونوں ڈیوائسز کو پہلے ہی فرانزک کے لئے بھیجاجاچکاہے
فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ عدالت کو لگتاہےکہ شاہد اسلم کے مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایف آئی اے تفتیشی افسر نے جسمانی ریمانڈ لینے کی ایک وجہ کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں بتائی جو کہ غیرتسلی بخش ہے۔
عدالت جسمانی ریمانڈ اس بنیاد پر نہیں دے سکتی کہ ایف آئی اے لیپ ٹاپ یا موبائل سے مزید ثبوت لے گی۔
وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے شاہداسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے 30 جنوری کوعدالت میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔