جرنیلوں اور سیاست دانوں کے مابین نیا معاہدہ ناگزیر ہے

سیاست دان جبر کی شکایت صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ فوج کی حمایت کھو چکے ہوتے ہیں، مگر جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے مخالفین کو اسی طرح کے سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں عموماً انہیں فوجی جرنیلوں کی بھی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ یہ طریقہ کار حالیہ برسوں میں اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

07:29 PM, 17 Jan, 2024

حسین حقانی
Read more!

پاکستان میں آنے والے عام انتخابات جو 8 فروری کو منعقد ہونے ہیں، بہت کم امکان ہے کہ ملک کی شورش زدہ تاریخ سے جڑے مسائل کو حل کر سکیں گے۔ برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی حصوں سے بننے والے پاکستان نے اپنی تاریخ کا بیش تر حصہ ہندوستان کے ساتھ مقابلہ کرنے میں گزارا ہے۔ اس کوشش میں پاکستان نے جوہری ہتھیار تیار کیے اور اسے فخر ہے کہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج اس کے پاس ہے۔ لیکن اس دوران پاکستان کو بار بار معاشی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا اور انسانی ترقی کے اعشاریے مسلسل خراب رہے ہیں۔

تاہم پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ ایک قابل عمل سیاسی نظام تشکیل نہیں دے سکا۔ 1947 میں قیام سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ملک ایک آئین پر متفق ہونے کے لیے جدوجہد میں الجھا رہا اور عام انتخابات کرانے میں ناکام رہا۔ پہلے شفاف اور آزادانہ انتخابات عام شہریوں کی جانب سے بھرپور دباؤ کے بعد 1970 میں فوجی حکومت کے زیر نگرانی منعقد تو ہوئے مگر ملک میں خانہ جنگی کا باعث بن گئے اور نتیجے میں ملک کا مشرقی صوبہ ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کے بعد سے مزید 10 انتخابات منعقد ہو چکے ہیں مگر یا تو ہارنے والوں کی طرف سے انہیں متنازعہ قرار دیا گیا یا ان کے نتیجے میں ایسی حکومتیں بنیں جو اپنی مدت ہی پوری نہ کر سکیں۔

پاکستان کی فوج جس کا ملک کے سیاست دانوں پر بھروسہ بہت کم ہے اور ملکی معاملات چلانے سے متعلق اپنے الگ خیالات رکھتی ہے، اس نے چار مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ جرنیل سمجھتے ہیں کہ فوج نے پاکستان میں آباد مختلف قومیتوں اور نسلوں کو باہم دست و گریبان ہونے سے باز رکھا ہوا ہے۔ لیکن فوج کی براہ راست اور اکثر بالواسطہ مداخلت سے سیاسی افراتفری ختم نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت اس مداخلت نے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

فوج چاہتی ہے کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور سے متعلق حتمی فیصلہ اس کا ہو اور سیاست دانوں کی اکثریت اس خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ فوج کا تجویز کردہ سویلین اور ملٹری قیادت پر مشتمل دہرے کنٹرول کا فارمولا جو سیاست دانوں اور جرنیلوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ملکی معاملات چلانے میں اپنے اپنے متعین کردہ کردار ادا کریں، ناکام ہو چکا ہے۔ جن سیاست دانوں کو شروع میں جرنیلوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے، آخر میں وہ بھی ان جرنیلوں پر یہ شکایت کرتے ہوئے پل پڑتے رہے ہیں کہ فوج تمام پالیسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔

پاکستان کے عوام جمہوریت کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے لیکن پاکستان کا سیاسی طبقہ جمہوریت کو فعال کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہر الیکشن کے بعد جو بھی اس وقت مقبول ہوتا ہے اقتدار سنبھال لیتا ہے، وہ اپنے مخالفین کو خاموش کروانے کی کوشش میں جت جاتا ہے، مبینہ طور پر اپنے خاندان کے لوگوں اور دوستوں کو مالا مال کرتا ہے اور دیگر سیاست دانوں کے ساتھ مفاہمت کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا اقتدار ختم کر دیا جاتا ہے اور بیش تر واقعات میں اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دوران جمہوری اصولوں کو بہت کم مدنظر رکھا جاتا ہے، حکومت کے ناقدین اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے کاروبار کو پولیس، سکیورٹی فورسز، ٹیکس حکام اور دیگر ادارے اکثر کمزور الزامات لگا کر نشانہ بناتے ہیں۔

پاکستان میں سیاست کا مطلب متبادل پالیسیاں یا متبادل سوچ نہیں ہے، سیاست مکمل طور پر ذاتی اور گروہی مفاد سے عبارت ہے۔ کچھ دھڑے یا سیاسی جماعتیں خاندانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں جبکہ دیگر سیاست دانوں کو کسی کرشماتی معروف شخصیت کے پاپولسٹ بیانیے کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ سرکردہ سیاست دان اکثر پارلیمنٹ کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں اور آزاد میڈیا کا بہت کم احترام کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں۔

بطور وزیر اعظم اپنے 3 سال اور 8 ماہ کے دور میں عمران خان نے قومی اسمبلی کے 442 میں سے محض 38 اجلاسوں میں شرکت کی جو 9 فیصد بنتی ہے۔ ان کے پیشرو نواز شریف نے 13.4 فیصد پارلیمانی اجلاسوں میں شامل ہو کر ان سے معمولی حد تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حالیہ برسوں میں زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ کی حاضری بھی مایوس کن رہی ہے اور اس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

سیاست دان جبر کی شکایت صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ فوج کی حمایت کھو چکے ہوتے ہیں، مگر جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے مخالفین کو اسی طرح کے سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں عموماً انہیں فوجی جرنیلوں کی بھی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ یہ طریقہ کار حالیہ برسوں میں اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ 2018 میں عمران خان اور ان کے حامیوں کو اس وقت کچھ غلط نہیں نظر آیا جب فوج نے انتخابات کا رخ ان کے حق میں اور نواز شریف کی مخالفت میں موڑ دیا تھا۔ اس مرتبہ فوجی حمایت میں ہونے والے ظلم و ستم جسے نواز شریف اور عمران خان کے دیگر مخالفین کی کھلی حمایت حاصل ہے، اس کے نشانے پر اب عمران خان خود آ چکے ہیں۔

پاکستان میں فوج کے موجودہ سربراہ سمیت تقریباً ہر کوئی اس بات پر متفق نظر آتا ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم ایک ایسا انتخاب جو آزادانہ اور منصفانہ ہو اور ووٹروں کو پاکستان کے سیاسی خاندانوں میں سے اور عمران خان جیسے سازشی ذہن رکھنے والے پاپولسٹ لیڈر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا موقع دے گا وہ پاکستان کے سنگین معاشی اور سکیورٹی مسائل کو حل کرنے میں زیادہ کردار نہیں ادا کر پائے گا۔ ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے اور بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے جیسے مشکل فیصلے منقسم سیاسی فضا میں آسانی کے ساتھ نہیں لیے جا سکتے۔ ایسے فیصلوں کے لیے قومی اتفاق رائے ازحد ضروری ہوتا ہے۔

معاشی حقائق پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے سرکاری ادارے جو برسوں سے خسارے میں جا رہے ہیں انہیں فروخت کر دیا جائے یا بند کر دیا جائے۔ ان میں قومی ایئر لائن اور ٹرانسپورٹ اور توانائی سے متعلق ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کا بڑھتا قومی خسارہ اور بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے زراعت، ریئل سٹیٹ اور ریٹیل جیسے بڑے شعبے جو بہت کم یا بالکل کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے انہیں محصولات میں اپنا حصہ بڑھانا پڑے گا۔ اب سے 2026 کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مد میں 78 ارب ڈالر واپس لوٹانے ہیں اور یہ ایک ایسی معیشت پر بہت بھاری بوجھ ہے جس کی سالانہ جی ڈی پی 350 ارب ڈالر بنتی ہے۔ محصولات کا دائرہ کار وسیع کرنے کے علاوہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے سے بھی فائدہ ہو گا مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات معمول پر لائے جائیں۔

ایسے جہادی دہشت گرد گروہ جنہیں بھارت کے خلاف غیر روایتی جنگ کے ایک حربے کے طور پر بڑھاوا دیا جاتا ہے یا برداشت کیا جاتا ہے، پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ان گروہوں کو شدت پسندی کے اس بیانیے سے تقویت ملتی ہے جو پاکستانی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے اور ایسے پاپولسٹ رہنماؤں کا بنانیہ انہیں مزید شہہ دیتا ہے جو پاکستان کے مسائل کی ذمہ داری بھارت، اسرائل اور امریکہ (یعنی ہندوؤں، یہودیوں اور مسیحیوں) کی تیار کردہ سازشوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔

جہادیوں کے خلاف کارروائی کرنا اور ان کے بیانیے کا جواب دینا اتنا ہی اہم ہے جتنا ضروری معاشی اصلاحات لانا اور خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی بڑا اقدام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستانی سیاست دان اقتدار کی ہوس میں پڑے رہیں گے یا فوج کے ساتھ محاذ آرائی کرتے رہیں گے۔

اگر پاکستان کو ایک فعال جمہوریت بننا ہے اور اپنے پیچیدہ اور دیرینہ مسائل حل کرنے ہیں تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منزل نہیں ہیں بلکہ انہیں ملک کے سفر کا آغاز سمجھنا ہو گا۔ پاکستان کو فوجی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے بیچ اور سیاست دانوں کے اپنے مابین ایک بڑے معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی اصول طے کیے جا سکیں، انہیں نافذالعمل کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جا سکے اور اقتدار کے موجودہ کھیل کو ختم کرنے کا طریقہ طے کیا جا سکے جس کے تحت جو اقتدار میں ہوتا ہے وہی سب سے طاقتور بن بیٹھتا ہے۔

اگر یہ نہیں ہو پاتا تو پاکستان ایک بحران سے نکل کر دوسرے میں پھنستا رہے گا، ایسے حالات میں ایک اور الیکشن سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

**

معروف سفارت کار اور مصنف حسین حقانی کا یہ تجزیہ برطانوی جریدے The Economist میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مزیدخبریں