https://twitter.com/hassan_sheikh4/status/1283683055664689154
اسی حوالے سے میڈیا پر کوریج بھی ہوتی نظر آئے گی اور سوشل میڈیا صارفین کا غم ، درد اور غصہ بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ہیشٹیگ کے تحت کی جانے والی ٹویٹس میں نقشہ کم شئیر کیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیلی فوج اورفلسطینی عوام کے تصادم کی تصویروں کو سیاسی و مذہبی نعروں سے مزین کرکے شئیر کیا جا رہا ہے۔
https://twitter.com/SYPPunjabOffice/status/1284023861298814977
ویسے تو زمین اور علاقہ کسی بھی جگہ پر بسنے والے اور اپنے آپ کو بطور قوم شناخت کرنے والے افراد کا حق ہوتا ہے اور فلسطینیوں کا بھی یہی مقدمہ ہے جس میں دنیا کا ایک حصہ انکے ساتھ ہے اور اس حوالے سے جذبات بھی رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ہونے والے ریاستی تشدد اور دہشتگری کی بھی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ فلسطینی سر زمین سے اگر کوئی دہشت گردی کا مرتکب ہو۔ لیکن کسی بھی معاملے کے حقائق بیان کئے جانا بھی بہت ضروری ہے۔
حقائق کے مطابق فلسطین کا نشان گوگل اور ایپل میپس سے ختم نہیں کیا گیا کیوںکہ یہ کبھی وہاں تھی ہی نہیں اور اسے فلسطین کے طور پر دکھایا ہی کبھی نہیں گیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ گوگل میپس سے متعلق یہ تنازع بھی نیا نہیں۔ 2016میں سب سے پہلے یہ تنازع کھڑا ہوا تھا جس میں سوشل میڈیا صارفین نے یہ کہا تھا کہ امریکا اور دیگر طاقتوں کی اسرائیلی طرف اشیر باد کی وجہ سے گوگل نے جان بوجھ کر فلسطین نقشے سے حذف کردیا ہے۔
جس پر گوگل کی ترجمان نے بتایا تھا کہ گوگل نے کبھی بھی فلسطین کو بطور ریاست نقشے پر دکھایا ہی نہیں تو ختم کرنے کا جواز نہیں ہے۔ البتہ فلسطینی علاقوں کو ایک دانے دار لکیر کے ذریعئے دکھایا گیا ہے جس کا مطلب کہ یہ متنازع علاقہ ہے۔
https://twitter.com/emyq24/status/1283710491513294849
اس حوالے سے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ گوگل سرحدی تنازعات میں پڑنے سے ہمیشہ احتراز برتتا ہے۔ کیونکہ انکے کاروباری مفادات پوری دنیا میں پھیلے ہیں۔ تاہم اس کوشش کے باوجود گوگل کو بڑے تنازعات کو شکار رہنا پڑا ہے اور اس کی بھاری بھرکم قیمت بھی دینی پڑی۔
مثال کے طور اگر روس میں صارفین اپنے ملک کا نقشہ دیکھیں گے تو انہیں یوکرین اور روس کے درمیان ایک ٹھوس سرحد دکھائی دے گی۔ تاہم روس سے باہر باالخصوص مغربی یورپ اور امریکہ میں اسے دانے دار لکیر سے نمایاں کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک متازعہ یا مقبوضہ علاقہ ہے۔
اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی پٹی کے بارے میں بھی اسی قسم کی بچت کی گئی ہے۔ اور کسی بھی تنازعے میں پڑنے سے احتراز کی کوشش کرتے ہوئے اس پر آزادانہ سیاسی موقف اپنایا گیا ہے۔
سو اس حوالے سے واضح ہونا چاہئے کہ ایک عرب صارف کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ جو کہ وائرل ہوچکی ہے کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
البتہ ناقدین کا یہ خیال ہے کہ جس طرح سے آن لائن کمپنیز ہمیں دنیا کا نقشہ دکھاتی ہیں یہ دیکھنے والوں کی دنیا کے بارے میں سیاسی رائے اور نکتہ نظر بھی تشکیل دیتا ہے اور کہیں نا کہیں یہ عالمی سیاسی نظام کے مفادات کو بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔