تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں اب نماز کے اوقات میں دکانیں بند نہیں ہوں گی، سعودی چیمبر آف کامرس نے فیصلہ کیا ہے کہ نماز کے اوقات میں دکانیں اور تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھا جائے گا. یہ فیصلہ نماز کے بعد دکانوں پر ہجوم سے بچنے کے لئے کیا گیا ہے تاکہ کورونا وائرس کے ایس او پیز پر عمل ممکن بنایا جاسکے.
ریاض کی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی سلطنت میں معاشرتی اور معاشی اصلاحات کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے جس کا تیل پر انحصار کم کر کے نجی شعبوں کو ترقی دینا ہے۔ کونسل آف سعودی چیمبرز کے فیصلے کے بعد دہائیوں پرانا اقدام غیر موثر ہوجائے گا جس کے تحت نماز کے اوقات کار کے دوران تمام دکانوں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کو کم از کم آدھے گھنٹے کے لیے بند کردیا جاتا تھا۔
’اوکاز‘ نامی اخبار نے بزنس فیڈریشن کے ایک مراسلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کورونا وبا کے دوران دکان کے مالکان اور خریداروں کی صحت کو مد نظر کرتے ہوئے ہم تمام دکاندار پر زور دیتے ہیں کہ وہ بشمول نماز کے اوقات کار میں اپنی دکانیں اور کاروبار کھلا رکھیں۔
سعودی حکومت کے میڈیا آفس نے غیرملکی خبرساں ادار ’رائٹرز‘ کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پر فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ گزشتہ چند سال سے سعودی عرب کی تیل کی کمائی میں مسلسل کمی آرہی ہے اور حکومت تیل کی کمائی پر انحصار کم کرنے کے لیے سیاحت اور انٹرٹینمنٹ سمیت دیگر متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
ریاض حکومت نے حالیہ چند سال میں نہ صرف وہاں خواتین سیاحوں کے لیے نرمیاں متعارف کرائی ہیں بلکہ پہلی بار خواتین کو ڈرائیونگ کرنے، انہیں غیر محرم کے ساتھ نوکری کرنے، ماڈلنگ و اداکاری کرنے اور فیشن ویکس میں شرکت کی اجازت بھی دی ہے۔ اب سعودی عرب میں خواتین غیر محرم مرد کے ساتھ نوکری بھی کرتی ہیں اور خواتین اداکاری کے شعبے میں بھی سامنے آئی ہیں۔
جون میں سعودی عرب نے اپنے قانون میں اہم تبدیلی کی تھی جس کے بعد اب ملک میں رہنے والی خواتین، والد یا کسی مرد سرپرست کی مرضی کے بغیر آزادانہ زندگی گزار سکیں گی۔
اہم ترین اسلامی ملک سعودی عرب نے پہلی بار عام سیاحت کا اعلان کرتے ہوئے غیر ملکی خواتین کو عبایا پہننے سے بھی آزاد قرار دیا تھا جس کے بعد اکتوبر 2019 میں سعودی عرب نے غیر ملکیوں کی سیاحت کے لیے توجہ حاصل کرنے کی غرض سے انہیں مزید آسانیاں دینے کا اعلان کردیا تھا۔