انہوں نے کہا کہ ‘جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود کابل حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور ہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کے اضلاع کو قبضے میں لے لیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا 20 سال میں ممکن نہیں تھا اور اس وقت بھی ممکن نہیں ہے لیکن کابل انتظامیہ اور اس کے حامی ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم عسکری قبضے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آئندہ حکومت میں ہماری توجہ افغانستان میں ترقی پر ہو گی، دوسرے ممالک کی سرمایہ اور تعاون کو خوش آمدید کہیں گے، ہم چاہتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہو اور تعلقات ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان ایک فورس ہے، سارے بارڈر ہمارے قبضے میں ہیں اور فعال ہیں، ہم نے 193 اضلاع قبضے میں لیے ہیں، اس میں فعال ہیں، 65 اضلاع پہلے ہی ہمارے پاس تھے اور اس وقت افغانستان کے تقریباً 260 اضلاع ہمارے قبضے میں ہیں اور ان سب میں ایک حکم ہمارے سپریم لیڈر کا چل رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری کسی ملک کے ساتھ لڑائی نہیں ہے، ہماری لڑائی ہمارے ملک پر ہونے والے قبضے کےخلاف تھی، پہلے بھی ایسے قبضےکےخلاف اور اب سپر پاور امریکا آیا اور ہمارے ملک پر قبضہ کیا اور ہماری آزاد اور معمول کی زندگی چھین لی اور ہمارے حقوق پر قبضہ کیا تو پھر ہم نے ملک میں اس کےخلاف لڑائی کی’۔
سہیل شاہین نے کہا کہ ‘ہماری استطاعت تھی کہ دوسرے ملکوں میں جائیں اور ان کے خلاف حملے کریں کیونکہ یہ ہماری پالیسی نہیں تھی اس لیے ایسا نہیں کیا لیکن اپنے ملک میں مزاحمت کی اور لڑائی کی اور ان کے خلاف جہاد کیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب قبضہ نہ ہو تو دوسرے ممالک اور خصوصاً اسلامی ممالک کے ساتھ خواہ مخواہ کیوں لڑائی کریں، یہ تو ٹھیک نہیں ہے، ہمارے خلاف جو بھی قیاس آرائیاں اور منفی باتیں کی جاتی ہیں وہ دشمنی پر مبنی ہے
۔