تاہم قارئین شائد نہ جانتے ہوں، طارق عزیز بچپن سے ہی سیاست کا شوق رکھتے تھے۔ اور انہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے بحرانی ادوار میں بائیں بازو کی سیاست میں حصہ لیا جس کی وجہ سے انہیں کئی بار پی ٹی وی کی اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں واقعہ سنایا جب وہ پاکستان ٹیلی ویثرن کے کراچی سینٹر میں سینئر پروڈیوسر تھے اور ابھی ٹی وی کی نشریات کے آغاز میں دو ماہ باقی تھے۔ جبکہ انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کسان کانفرنس کے بارے میں معلوم ہوا جہاں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی شریک ہو رہے تھے۔ یہ کراچی سے لاہور بذریعہ جہاز اور لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ بذریعہ ٹیکسی پہنچے۔
وہاں انہوں نے خطاب کے لئے 5 منٹ مانگے جو کہ 45 منٹ تک کھنچ گئے۔ اس کے بعد جب وہ کراچی پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ وہ نوکری سے برخاست کردیئے گئے ہیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد انہیں ذولفقار علی بھٹو کا فون آیا اور انہوں نے ان سے ملنے کی خواہش کی۔ طارق عزیز بائیں بازو کے نظریات کے ساتھ پیپلز پارٹی میں رہے۔ بعد ازاں یہ علیحدہ ہوئے اور پھر ضیاا لحق سے بھی علیک سلیک رہی بقول انکے ضیا ان سے دوستی چاہتے تھے۔ طارق عزیز بھٹو دور ، ضیا اور بے نظیر دور میں اپنی نوکری سے برخاست ہوئے۔
آج کے حوالے سے مرحوم کی سیاسی زندگی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہیں میاں نواز شریف نے 1997 کے الیکشن میں ن لیگ کا ٹکٹ دیا اور انہیں موجود وزیر اعظم عمران خان کے سامنے اتارا۔ انہوں نے عمران خان کو بد ترین شکست دی۔ اس الیکشن میں طارق عزیز نے پچاس ہزار ووٹ لئے جبکہ عمران خان صرف چھ ہزار ووٹ لے سکے تھے۔ عدالت حملہ سازش میں طارق عزیز کا نام آیا اور یہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نا اہل بھی ہوگئے۔ تاہم تا دم مرگ وہ اس بات سے مکمل انکار کرتے رہے کہ انہیں اس حوالے سے کسی بھی معاملے کی خبر تھی۔
اسی اور نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والے پاکستانیوں کے بچپن کی یادوں کا کبھی بھلایا نہ جا سکنے والا حصہ ایک عہد ساز شخصیت طارق عزیز 17 جون 20 کو ہمیں ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ گئے۔
مرنے کے بعد اپنی تمام دولت اور جائیداد پاکستان کے نام وقف کرنے کی وصیت کی تھی۔