طارق عزیر کہاں پیدا ہوئے، کہاں پلے بڑھے؟
1936 میں موجودہ بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہونے والے طارق عزیز نے 84 سال کی عمر پائی۔ اردو میں کہا جائے تو طارق عزیز ہر فن مولا تھے، انگریزی میں انہیں یاد کیا جائے تو وہ دہائیوں تک پاکستان میں ہاؤس ہولڈ نیم تھے۔ منیر نیازی اور مجید امجد کے شہر ساہیوال میں پلے بڑھے۔ ان کے والد صاحب ایک اخبار نکالا کرتے جہاں ان شعرا سمیت بڑے نام اکثر آیا کرتے۔ اس وقت کے چھوٹے طارق عزیز کا کام انہیں چائے اور تمباکو ڈھونا ہوا کرتا۔
شعر و شاعری سے شغف کیسے ہوا؟
شعر و شاعری سے بنیادی شغف پالنے کے بعد ابلاغ سے لگاؤ انہیں ریڈیو تک کھینچ لایا۔ طارق عزیز ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھا کرتے تھے جب کہ کمپئرنگ کے سلسلے بھی جاری رہے۔ 1964 میں جب پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو وہ وہاں کام کرنے والی اولین شخصیات میں سے ایک تھے۔ بھاری بھرکم مردانہ وجاہت کی مظہر آواز کے حامل طارق عزیز نے پاکستان ٹیلی وژن کی پہلی نشریات کی میزبانی بھی کی تھی۔ انہیں اصل شہرت پاکستان ٹیلی وژن پر 1975 میں شروع ہونے والے پروگرام ’ نیلام گھر‘ سے ملی۔
’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘
ان کا یہ پروگرام شروع کرنے کا انداز ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ بہت مشہور ہوا اور یہی ان کی پہچان بنا۔ اس جملے کی کہانی سناتے ہوئے طارق عزیز نے بتایا تھا کہ نیلام گھر کے دوران میں سب میزبانوں کی طرح اسلام علیکم سے شروع کیا کرتے تھے۔ ایک روز ایک لڑکے کا خط انہیں ملا جس میں اس نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ مجھے تو سلام ہی نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تب بیٹھے بیٹھے ہی یہ فارمیشن میرے ذہن میں آ گئی۔ 40برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو بعدازاں ’بزمِ طارق عزیز‘ کا ہی نام دے دیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں طارق عزیز کی شہرت اور طلب کا یہ عالم تھا کہ وہ کمپئرنگ کے لئے ایک گھنٹے کے دس لاکھ روپے بھی وصول کرتے رہے۔
فلموں میں اداکاری، اور میڈم نور جہاں سے دوستی کے چرچے
طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ’سالگرہ‘، ’قسم اس وقت کی‘ اور ’ہار گیا انسان‘ شامل ہیں۔ انہوں نے معروف صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے شوبز چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوبصورت دنیا تھی۔ کبھی کبھی جی میں آتا ہے کہ وہ کیوں چھوڑ کر میں چلا آیا۔
ایک زمانے میں طارق عزیز اور ملکہ ترنم نور جہاں کی دوستی کے چرچے رہے۔ طارق عزیز خود کہتے ہیں کہ اسے میں پسند تھا، میں اسے پسند کرتا تھا، اور ہم دوست تھے۔
ایک ہی اولاد ان کا بیٹا تھا جس کا انتقال ہو گیا
شعر و شاعری اور میڈیا کی چکاچوند میں رہنے والے طارق عزیز خود کو حسن پرست کہا کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ حسن پرستی تو مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور خوبصورتی کا میں دلدادہ ہوں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے خاندان میں شادی کی۔ ان کی ایک ہی اولاد ان کا بیٹا تھا جس کا انتقال ہو گیا۔
مولانا بھاشانی کی محبت میں پی ٹی وی کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے
ناظرین و سامعین شائد نہ جانتے ہوں، طارق عزیز بچپن سے ہی سیاست کا شوق رکھتے تھے۔ اور انہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے بحرانی ادوار میں بائیں بازو کی سیاست میں حصہ لیا جس کی وجہ سے انہیں کئی بار پی ٹی وی کی اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں واقعہ سنایا جب وہ پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی سنٹر میں سینیئر پروڈیوسر تھے اور ابھی ٹی وی کی نشریات کے آغاز میں دو ماہ باقی تھے۔ جب کہ انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کسان کانفرنس کے بارے میں معلوم ہوا جہاں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی شریک ہو رہے تھے۔ یہ کراچی سے لاہور بذریعہ جہاز اور لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ بذریعہ ٹیکسی پہنچے۔ وہاں انہوں نے خطاب کے لئے 5 منٹ مانگے جو کہ 45 منٹ تک کھنچ گئے۔ اس کے بعد جب وہ کراچی پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ وہ نوکری سے برخاست کر دیے گئے ہیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد انہیں ذولفقار علی بھٹو کا فون آیا اور انہوں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ طارق عزیز بائیں بازو کے نظریات کے ساتھ پیپلز پارٹی میں رہے۔ بعد ازاں یہ علیحدہ ہوئے اور پھر ضیاالحق سے بھی علیک سلیک رہی۔ بقول ان کے، ضیا ان سے دوستی چاہتے تھے۔ طارق عزیز بھٹو دور، ضیا اور بے نظیر دور میں اپنی نوکری سے برخاست ہوئے۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو الیکشن میں شکست دی
ان کی سیاسی زندگی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہیں میاں نواز شریف نے 1997 کے الیکشن میں ن لیگ کا ٹکٹ دیا اور انہیں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے مدِ مقابل اتارا۔ انہوں نے عمران خان کو بد ترین شکست دی۔ اس الیکشن میں طارق عزیز نے 50 ہزار سے زائد ووٹ لیے جب کہ عمران خان پانچ ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے تھے۔ عدالت حملہ سازش میں طارق عزیز کا نام آیا اور یہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نا اہل بھی ہو گئے۔ تاہم تا دمِ مرگ وہ اس بات سے مکمل انکار کرتے رہے کہ انہیں اس حوالے سے کسی بھی معاملے کی خبر تھی۔
’غصہ نہ کرنے والا بے غیرت ہوتا ہے‘
دقیق مطالعے کا شغف رکھنے والی بظاہر نفیس شخصیت کے حامل طارق عزیز پر الزام رہا کہ وہ بہت سخت مزاج اور فرعونیت کی حد تک غصیلے ہیں۔ طارق عزیز ان الزامات سے واقف تھے اور انہوں نے سہیل وڑائچ کو ہی متفرق انٹرویو میں اس الزام کو یوں رد کیا کہ غصہ نہ کرنے والا بے غیرت ہوتا ہے تاہم غصے کا صحیح جگہ استعمال ہو تو وہ ٹھیک ہے۔
ایک عہد جو تمام ہوا
مشرف دور میں پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا کی یلغار ہوئی لیکن طارق عزیز اس تبدیلی کے ساتھ زیادہ نہیں جڑ سکے اور کچھ سالوں بعد وہ اس انڈسٹری کو خیرباد کہہ گئے۔ انہیں 1992 میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا صدارتی ایوارڈ ملا۔ طارق عزیز نے اپنی تمام تر دولت وفات کے بعد پاکستان کو وقف کر دینے کی وصیت کر رکھی تھی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والے پاکستانیوں کے بچپن کی یادوں کا کبھی بھلایا نہ جا سکنے والا حصہ ایک عہد ساز شخصیت طارق عزیز 17 جون 2020 کو ہمیں ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ گئے۔ لیکن اس عہد اور ان کے چاہنے والے جب تک زندہ ہیں، اپنے بچوں کو اس کی کہانیاں سناتے رہیں گے۔