قاضی فائز عیسیٰ کی کمرہ عدالت میں دبنگ انٹری، فروغ نسیم پر شدید الزامات کی بوچھاڑ کر دی

04:36 PM, 17 Jun, 2020

اسد علی طور
کمرہ عدالت میں پہنچا تو پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری، خالد رانجھا، اور حکومت کی پارلیمانی سیکریٹری برئے لاء ملیکہ بخاری کمرہ عدالت میں موجود تھیں اور بیرسٹر شہزاد اکبر بھی آ کر ملیکہ بخاری کے ساتھ بیٹھ کر بات کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد فروغ نسیم بھی کمرہ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ 9 بج کر 33 منٹ پر کورٹ لگنے کی آواز آئی تو ججز آ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ بیٹھتے ہی جسٹس عمر عطا بندیال جو کہ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ ہیں انہوں نے بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف دیکھ کر کہا کہ جی بسم اللہ، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں کل وزیر اعظم سے ملا ہوں اور مشاورت کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چار دہائیوں پرانی اپنی پراپرٹی کا حساب کتاب بھی میں نے دیا تھا تاکہ خود احتسابی کی مثال قائم کر سکوں، بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہم اس کو ٹھیک کرنے کو تیار ہیں۔ وفاق کے وکیل کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں عدالت کی آفر قبول ہے، اگر آپ ایف بی آر کو دو ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کا کہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی فیملی سے بھی کہیں کہ وہ تعاون کرے ایف بی آر سے، تو ہمیں یہ آفر قبول ہے۔

اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ قاضی صاحب نے کل داخل کردہ جواب میں الزامات لگائے ہیں کہ عمران خان صاحب اور بیرسٹر شہزاد کی جائیدادیں ہیں تو عمران خان صاحب کا اس پر کہنا ہے کہ میں استعفا دے کر جائیدادیں قومی خزانے میں جمع کرانے کو تیار ہوں اگر وہ جائیدادیں میری ہیں۔ اسی طرح میں نے بیرسٹر شہزاد اکبر سے بھی بات کی۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ میری یوکے میں کوئی جائیداد نہیں۔ مزید بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کی آج صبح فردوس عاشق اعوان صاحبہ سے بھی بات ہوئی اور انہوں نے بھی اپنی جائیدادیں لندن میں ہونے کی تردید کی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر کہا کہ دراصل یہ الزامات ہماری کرداد کشی کے لئے لگائے گئے ہیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چھوڑیے، ہم نے ابھی تک ان کا جواب پڑھا بھی نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی غور و فکر کی ہے۔ اس پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ میں نے ان کا جواب پڑھا ہے اور میرے خیال میں قاضی صاحب یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اگر آپ انٹرنیٹ پر جا کر سرچ کریں تو آپ کو مختلف ناموں کی جائیدادیں مل جاتی ہیں جو کہ ضروری نہیں کہ درست ہوں، تو وہ یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی جائیدادوں کو اتنی ایکیوریسی سے اس لئے ڈھونڈا گیا کہ وہ صرف انٹرنیٹ کی مدد سے نہیں ڈھونڈی گئیں۔

اس پر ابھی بیرسٹر فروغ نسیم کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ اچانک ہم سب نے دیکھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم اور حکومتی بینچز ایک دم ہلے ہیں، جب ہم نے سر گھما کہ دیکھا تو کمرہ عدالت میں ناقابلِ یقین مناظر تھے۔ یہ تاریخی مناطر تھے کیوں کہ پکستان سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ عدالت کے ججز میں سے کوئی جج بطور پیٹشنر پیش ہو رہے تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرسٹر فروغ نسیم سے دو قدم پیچھے آ کے کھڑے ہو گئے تھے جب کہ منیر اے ملک ایڈوکیٹ کے لاء ایسوسی ایٹس ان کے دائیں بائیں آ کر کھڑے ہو گئے۔ اس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے مڑ کر دیکھا اور خاموشی سے ایک سائیڈ پر کھڑے ہو گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روسٹرم پر آئے۔ انہوں نے N-95 ماسک پہن رکھا تھا اور لائٹ گرے کلر کے سوٹ میں وائٹ شرٹ پہنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی گفتگو کا آغاز ان جملوں سے کیا کہ مائی لارڈ شپ مجھے آج تک ایک قرآنی آیت کی سمجھ نہیں آتی تھی جس میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنا موت سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ لیکن جب میری فیملی کو اس مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو اب مجھے اس قرآنی آیت کی سمجھ آئی۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ براہِ مہربانی اگر مائیک کے قریب ہو جائیں یا ماسک اتار لیں تو ہم آپ کو سن سکیں گے، آپ کی بات صحیح سمجھ نہیں آ رہی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ماسک اتارنے سے انکار کر دیا کہ یہ میری بیگم کا کہنا ہے کہ آپ ماسک لگا کے رکھیں اور میری بیگم میرے لئے ان چند لوگوں میں سے ہے کہ جن لوگوں کی بات میں مان لیتا ہوں۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پھر بولنے کی کوشش کی۔ جب آواز نہیں گئی تو انہوں نے ماسک اتار کے کہا کہ ٹھیک ہے، میں اپنی بیگم کی بات کی خلاف ورزی کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ سے وہی آیت پڑھی اور اس کا ترجمہ پڑھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو روک کے کہا کہ آپ ہمارے معزز بھائی جج ہیں، آپ براہِ مہربانی بیٹھ جائیں کیونکہ ابھی حکومتی سائیڈ کے دلائل چل رہے ہیں اور آج کے نوٹسز صرف ان کو ہوئے ہیں اور آپ ان کا وقت لے رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ جناب میں ان کے جواب دینے سے پہلے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ مجھے سن لیں۔ اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ آ پ کو حکومت کا ٹائم ضائع نہیں کرنا چاہیے، آپ پیٹشنر ہیں، آپ مہربانی کر کے بیٹھ جائیں۔ یوں نہیں ہوتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کی بات سنی ان سنی کر کے دوبارہ اصرار کیا وہ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو اجازت دے دی۔ اس دوران تمام کمرہ عدالت میں لوگ باقاعدہ سکتے کی حالت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف دیکھے جا رہے تھے اور بینچ کے ساتھی ججز بھی صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گویا ہوئے۔ یہ الزام جو لگائے گئے ان سے میری اور میری بیوی کی کردار کشی کی گئی۔ میری بیوی نے مجھے جون میں کہا جب پہلی دفعہ یہ ریفرنس سامنے آیا کہ کیا مجھے جواب دینا چاہیے؟ تو میں نے انہیں کہا کہ نہیں یہ میرے خلاف ریفرنس ہے مجھے سامنا کرنے دیں۔ آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ اس کے بعد بھی وہ خاموش رہیں جب کہ ایوان صدر میں صدر صاحب نے تین انٹرویوز دے کر اس ریفرنس پر بات کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ آپ یہ سوچیے کہ آپ پر میڈیا میں بھی الزامات لگائے جا رہے ہیں اور میرے اور میری فیملی کے منہ پر ٹیپ لگی ہوئی ہے اور ہم یہ سب برداشت کر رہے ہیں۔ میری بیگم خود ایف بی آر کے دفتر دو دفعہ گئیں، انہوں نے نہ سرکاری گاڑی استعمال کی اور نہ گارڈز کو لے کر گئیں۔ وہ ایک پرائیویٹ شہری کے طور پر گئیں اور وہاں پر ان سے بدتمیزی کی گئی۔ انہوں نے جب مجھے بتایا تو میں نےان سے کہا کہ یہ ہر پاکستانی عام شہری کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قاضی صاحب نے کہا کہ میری بیگم مجھ سے پوچھتی رہیں کہ کب مجھے سپریم جوڈیشل کونسل بلائے گی اور مجھ سے جائیدادوں کا حساب مانگے گی؟ میں انہیں جواب دوں گی۔ لیکن نہ سپریم جوڈیشل کونسل نے مجھے بلایا اور نہ ہی میری بیگم کو بلایا اور اپنی سماعت جاری رکھی۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میری بیگم کے والد کو کینسر ہے، اس وجہ سے وہ گھر سے خود نہیں آ سکتیں اور انہوں نے مجھے اپنے پیغام رساں کے طور پر بھیجا ہے اور میں اب ایک پیغام رساں کے طور پر بات کر رہا ہوں اور اس سے پہلے بھی جو میں نے گفتگو کی ہے اگر اس میں کوئی توہین کا پہلو نکلتا ہو تو حکومتی سائیڈ میرے اوپر ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتی ہے کیونکہ میں یہاں پر بطور جج نہیں کھڑا، بطور پیٹشنر کھڑا ہوں اور اگر میری کسی بھی بات کو حکومت نے چیلنج کیا تو میں بطور جج حاصل آئینی تحفط کو استعمال نہیں کروں گا۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ سے بیرسٹر شہزاد اکبر کی طرف سر گھما کے دیکھا کہ بیرسٹر شہزاد اکبر کہاں پر ہیں؟ تو جو وکلا تھے وہ تھوڑے سے سائیڈ پر ہٹے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے نظر نہیں آ رہا کہ بیرسٹر شہزاد اکبر کہاں پر ہیں لیکن انہوں نے کل ٹی وی پر اس عدالت میں زیر سمعت مقدمے پر ایک انٹرویو کا انعقاد کیا اور انہوں نے گفتگو کی ہے جب کہ ہم اس معاملے پر کوئی گفتگو نہیں کر رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت دس رکنی فل کورٹ کو ایک بہت بڑی آفر دیتے ہوئے کہا کہ میری بیگم کہتی ہیں کہ میں والد کے کینسر کی وجہ سے نہیں آ سکتی کیونکہ میں ان کی تیمارداری کر رہی ہوں لیکن میں ویڈیو لنک پر آپ کو اپنی جائیدادوں کا حساب دینا چاہتی ہوں۔ آپ ججز ان سے چاہے سو سوال کریں، یا دو سو سوال کریں اور چاہے حکومتی سائیڈ ان سے ہزاروں سوال کرے۔

فل کورٹ کے سبراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ تو آپ بہت بڑی بات کر رہے ہیں اور بہت ہی نوبل بات ہے جو بیگم صاحبہ نے کی ہے۔ اس پر انہوں نے بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف دیکھا جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تقریباً دو قدم کے فاصلے پر روسٹرم کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کا سر جھکا ہوا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں تو بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ جواب دے دیں۔ اگر یہ جواب دے دیتے ہیں تو آج ہی معاملہ ختم ہو جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ سے بولنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا میری بیگم جواب دینے کو تیار ہیں۔ وہ بہت اذیت سے گزری ہیں اور وہ اذیت ناقابلِ بیان ہے، جس سے میں اور میری فیملی گزرے ہیں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آپ نے حکومت کو ایک آفر دی ہے، میں اس پر بھی بات کرنا چاہوں گا لیکن فی الحال میں اپنی بیگم کا پیغام دے رہا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمیں پانچ منٹ دیجئے، ہم آپس میں مشورہ کر کے آپ کو بتاتے ہیں۔

کورٹ اٹھ گئی، ٹھیک 10 منٹ بعد کورٹ دوبارہ آ کر بیٹھ گئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ براہِ مہربانی قابل احترام بیگم صاحبہ کو کہیے کہ وہ اپنا تحریری جواب جمع کرائیں اور اس کے ساتھ جو سپورٹنگ دستاویزات ہیں وہ بھی ساتھ لگا دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ نہیں، میری بیگم کوئی جواب نہیں جمع کرانا چاہتیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ میرے بینک اکائونٹس لیں گے اور ان میں خود سے پیسے ڈال کے کہیں گے کہ انہوں نے رشوت لی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میری بیگم آپ کو ویڈیو لنک پر جواب دینا چاہتی ہیں، چاہے آپ ان سے ہزار سوال کریں۔ اس کے بعد آپ ان کو ہدایت کر دیجئے گا کہ وہ آپ کو تحریری جواب جمع کرا دیں، میں ان کی معاونت نہیں کروں گا، وہ خود سے جواب دیں۔ وہ وکیل نہیں ہیں لیکن وہ بولنا چاتی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی پیشکش اپنی جگہ لیکن ہم نے اپنے طریقہ کار کے مطابق چلنا ہے اور میں نے اپنے ساتھی ججز سے مشورہ کرنے کے بعد آپ کو یہ آپشن دیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید اصرار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں وہ ویڈیو لنک پر ہی بات کرنا چاہتی ہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی بیگم صاحبہ اپنی سہولت کے لئے عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتیں۔ ان سخت ریمارکس کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے مداخلت کی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہا کہ جج صاحب آپ بیٹھ جائیں، اس پر جسٹس قاضی عیسیٰ نہ کہا کہ آپ مجھے جج مت کہیے کیونکہ میں بطور جج اس کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہوں۔ میں پیٹشنر کے طور پر آیا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں مختصر سی بات اور کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ پانچ منٹ لے لیجئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، دس منٹ نہیں ہو سکتے؟ جس پر جسٹس عمر عطا بندیا ل ہنس پڑے اور کہا کہ آپ بات شروع کیجئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ کہا کہ یہ جو بیرسٹر فروغ نسیم ہیں، یہ ایک غیر جمہوری انسان ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ مہربانی کر کے دوسری سائیڈ کے وکلا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں اور آپ اپنے کیس سے متعلق بات کیجئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لہجے میں مزید سختی لاتے ہوئے کہا کہ میں کیس پر بات کرتا ہوں، لیکن میں پہلے بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر شہزاد اکبر پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے میرے خلاف یہ ریفرنس دائر کروایا۔ یہ ایک غیر جمہوری انسان ہیں اور فروغ نسیم نے کل میری بیوی کے خلاف توہین آمیز گفتگو کی ہے۔ اس پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے اور جج صاحب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں منافق نہیں ہوں، لیکن یہ لوگے ہیں۔

جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ باتیں کر رہے تھے تو بیرسٹر فروغ نسیم اپنی جگہ پر سر جھکائے کھڑے آہستہ آہستہ اپنا سر جھٹک رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس دوران انتہائی برہمی سے کہا کہ میری اہلیہ کی کردار کشی کی گئی اور ان کو کہا گیا کہ وہ سلائی مشین چلاتی ہیں۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو دیانتداری سے کہتا ہوں کہ اس پر حکومت نے کچھ نہیں کہا تھا، یہ میں نے مثال دی تھی جس کو حکومت نے آگے سے کیری کر لیا تھا لیکن اس کا ہمارے ساتھی جج جسٹس قاضی محمد امین نے فوری طور پر نوٹس لیا تھا اور ایسا کہنے سے روک دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ میں کارپوریٹ وکیل رہا ہوں۔ اگر میں نے جائیدادیں چھپانی ہوتیں تو میں بہت آسانی سے ایسا کر سکتا تھا کیونکہ مجھے ایسا کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ اور حکومتی سائیڈ روزانہ کہتی ہے کہ جائیدادیں ثابت ہو گئیں۔ آج پتہ چل گیا، کل پتہ چل گیا۔ یہ سب کیسے چل رہا ہے؟ اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ایسا کریں اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں جو آپ نے دوبارہ پیش کش کی ہے ہم اس پر غور کریں گے اور آرڈر لکھوا دیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پھر اصرار کیا کہ نہیں میں بولنا چاہتا ہوں۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سختی سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اپنا لہجہ سخت نہیں کرنا چاہتا۔ جتنا نرم لہجہ کر سکتا ہوں، اس میں کر کے کہہ رہا ہوں کہ جج صاحب آپ بیٹھ جائیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا سخت موڈ دیکھ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دو لمحے کے لئے رکے اور انہوں نے غور سے جسٹس عمر عطا بندیال کے چہرے کی طرف دیکھا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم سے ہٹتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ میری بیگم کا بیان لے بھی لیں، اس سے مطمئن ہوں یا نہ ہوں، میں ایف بی آر والی آفر کو نہیں مانتا اور میں حکومت کے خلاف مقدمہ ہی چلاؤں گا اور مڑ کر اپنی نشست کی طرف چلے گئے۔ اس دوران میں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا تو ان کی آنکھیں سرخ تھیں اور آنکھوں میں سوجن تھی اور واضح طور پر لگ رہا تھا کہ وہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ وہ دو لمحے کے لئے اپنی نشست پر بیٹھے اور پھر اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم دوبارہ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے عدالت سے دعبارہ استفسار کیا کہ سر کیا ایف بی آر والی آفر اب بھی موجود ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ہم منیر اے ملک سے پوچھ کر جواب دیں گے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جذباتی ہو رہے تھے۔ ہم منیر اے ملک سے دوبارہ پوچھیں گے کہ آپ جذباتی ہوئے بغیر سوچ کر بتائیں۔

اس کے بعد انہوں نے بیرسٹر فروغ نسیم سے کہا کہ آپ دوبارہ دلائل شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں ریفرینس کے قابلِ سماعت ہونے پر بات کرنا چاہوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے کل غیر قانونی معلومات جمع کرنے پر دلائل دینے کا وعدہ کیا تھا۔ میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں کہ قابلِ سماعت ہونے کے حوالے سے پھر سے بات غیر قانونی معلومات تک بھی آ جائے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ آپ شروع کریں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ جب آپ کا جواب آ گیا تو 2 جولائی کو نوٹس جاری ہوا تو آپ نے ایک ری جوائنڈر جمع کرایا تو وہ جو ری جوائنڈر جاری کیا گیا وہ نوٹس کے بعد تھا۔

اس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی ہاں وہ سپریم جودیشل کونسل کی ہدایت پر جمع کیا گیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ کار بہت بڑا ہے اور جب ان کے سامنے معلومات آتی ہیں تو وہ کسی بھی قسم کا نوٹس لے سکتی ہے اور انکوائری آگے بڑھا سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انکوائری تو ری جوائنڈر سے پہلے ہونی چاہیے تھی، کیا صدر نے انکوائری کے لئے قانونی عمل پورا کیا؟ تو اس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ یہ وہ دیکھ کر بتائیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے، کیا دیکھیں گے؟ ہمارے سامنے دستاویزات موجود ہیں اور ان میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ کیا ری جوائنڈر میں کوئی نیا الزام لگایا گیا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ نیا تو کچھ نہیں ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ اگر ریفرنس میں دو الفاظ تھے تو ری جوائنڈر میں ان کی وضاحت کرنے کے لئے بیس الفاظ استعمال کیے گئے۔ جسٹس مقبول باقر نےسوال کیا کہ کیا جو باتیں کہی گئیں وہ ثبوت تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں معاملہ شہادت کا نہیں تھا آپ انہیں دستاویزات کہہ لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ وہ ری جوائنڈر کس کی طرف سے اٹارنی جنرل صاحب نے جمع کرایا تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ خود اپنے طور پر۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ وکیل وفاق کے ہیں اور اپنے طور پر جمع کروا رہے ہیں؟ اور آپ صدر اور وزیر اعظم سے مشورہ بھی نہیں کر رہے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نہ کہا کہ جب شو کاز ہو جائے تو صدر اور اٹارنی جنرل کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے نوٹس دیکھ کر اپنا ذہن استعمال کیا اور جواب جمع کرا دیا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ کیا اٹارنی جنرل گواہ بن سکتے ہیں تو بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ وکیل کو اختیا ہوتا ہے کہ وہ گواہ بن سکے۔ اس کے بعد کمرہ عدالت میں 11 بج گئے اور عدالت نے وقفے کا اعلان کیا۔

جب 11 بج کر 40 منٹ پر ایک دفعہ پھر کورٹ آنے کی آواز لگی اور تمام ججز ایک دفعہ پھر کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی عام آدمی کی شکایت پر بھی معاملہ اٹھا سکتی ہے اور صدارتی ریفرنس پر بھی معاملہ اٹھا سکتی ہے اور انکوائری کا کہہ سکتی ہے اور سو موٹو کے تحت بھی کارروائی کر سکتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر عام آدمی معلومات دیتا ہے تو وہ یہ رائے نہیں دے سکتا کہ جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے لیکن اگر صدر ریفرنس بھیجے گا تو وہ اپنا ذہن استعمال کرے گا۔ رائے دے گا کہ مس کنڈکٹ ہوا ہے۔ اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ صدر کے سامنے وہ کیا معلومات تھیں جنہیں دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر کے سامنے غلط معلومات کو رکھ کر ان سے غلط رائے بھی تو لی جا سکتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ صدر نے اپنی مرضی سے ریفرنس دے کر بھیج دیا اور وہ رائے انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل پر چھوڑ دی کہ وہ فیصلہ کرے۔

جسٹس منیب اختر نے ان کو ٹوک کر کہا کہ یہ تو آپ بہت خطرناک بات کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کے نتائج ہوں گے کہ صدر خود فیصلہ کر سکتا ہے مس کنڈکٹ کا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتا ہے کہ میں غلط ہوں یا درست۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم ریفرنس کو کسی الہامی دستاویز کی طرح نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے لئے ریفرنس کے مواد میں جان ہوگی تو دیکھا جائے گا انکا مزید کہنا تھا کہ جو بھی ایس جی سی کی فائنڈنگ ہوں گی، ہم ججز قابل احتساب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ منیر اے ملک کو کہا ہے کہ وہ جذباتی ہوئے بغیر جواب دیں، اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر سماعت چلے گی اور فیصلہ آئے گا۔ شاید تھوڑا مختلف آئے لیکن مکمل مختلف نہیں ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت بیٹھے ہیں جس میں ہم اپنے عوامی اور ذاتی کنڈکٹ کے بھی جواب دہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہم پھر بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جج پر الزام لگا دے اور عدلیہ کی خود مختاری، قانون کی حکمرانی اور جج کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ آپ نااہلی پر، بد نیتی پر، جاسوسی پر اور غیر قانونی معلومات پر دلائل دیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں اس طرف آؤں گا۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ سر مجھے بولنے دیں۔ اگر نہیں بولوں گا تو دلائل کیسے دوں گا؟ میری ایک استعداد ہے۔ اگر اسے استعمال نہیں کروں گا تو دلائل کیسے دوإ گا۔ ججز نے ہنس کر کہا کہ کہ آپ پورا موقع لیں اور بات کیجئے، ہم آپ کو نہیں روکیں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ افتخار چوہدری کے کیس میں بدسلوکی واضح نظر آرہی تھی جو بدنیتی کی نشانی تھی لیکن یہاں پر دفاع کیا گیا ہے کہ فروغ نسیم اچھا آدمی نہیں ہے۔ میں ایک غیر جمہوری انسان ہوں، دلیل یہ ہے کہ فیض آباد دھرنے کی وجہ سے ریفرنس دائر ہوا۔ اگر میں غیر جمہوری انسان ہوتا تو مجھے وکلا کی پاکستان بار کونسل وائس چئیرمین منتخب کرتی۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر معلومات آئیں تو کیا سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ اس کو صدارتی ریفرنس میں بدل سکتی ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ سر آرمی چیف کے کیس میں آپ نے ہی فیصلہ دیا ہے کہ ہم کسی بھی پیٹیشن کو سو موٹو میں بدل سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ہمارے سامنے پیٹیشن آئی تھی، اس میں جان تھی تو ہم نے فیصلہ دیا کہ ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ فیصلہ میں نے ہی لکھا۔ اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ایس جی سی اگر شو کاز نوٹس جاری کر دیتی ہے تو مطلب انکوائری شروع اور وہاں صدر کا کرداد ختم۔ تو بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی سر میرا یہی کیس ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے مزید کہا کہ ایس جی سی نے فیصلہ کرنا ہے کہ ریفرنس ٹھیک ہے یا نہیں اور اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ریفرنس غلط ہے تو وہ اٹھا کر باہر پھینک دیں۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے دلائل ہمیں کنفیوز کر رہے ہیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم کہا کہ میں پوری کوش کر رہا ہوں آپ کو اپنے دلائل دینے کی لیکن میں جو بات کرنے لگا تھا آپ نے مجھے بھلا دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں آپ کو یاد دلا دیتا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آپ ایک سوال کو بار بار پوچھتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ آپ جواب جو نہیں دیتے۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اب آپ سے کچھ نہیں پوچھوں گا۔ آپ جواب دیجئے۔ انہی کی بات کا ساتھ دیتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میں بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سوال نہیں کروں گا لیکن جسٹس منصور علی شاہ نی کہا کہ جہاں مجھے کسی بات کی وضاحت کی ضرورت ہوگی تو میں ضرور سوال کروں گا۔

اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ایس جی سی ایک بہت با اختیار ادارہ ہے اور وہ صدر کی رائے کا پابند نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب ایک سوال پوچھوں تو بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا جی سر، تو جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ طنز کیا کہ دیکھ لیں، آپ ناراض ہو جاتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اس نوک جھوک سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا کہ سر میں آپ سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ شکر ہے آپ ناراض نہیں ہوتے۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے مداخلت کی اور کہا کہ ایک چھوٹی سی آبزرویشن دے دوں اگر فروغ نسیم صاحب کی اجازت ہو۔ آپ اگر کہہ رہے ہیں کہ ہماری 184(3) کی دائرہ کار کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل کام نہیں کر سکتا تو وہ درست نہیں ہے، اس کے بعد ججز نے ایک دفع پھر بریک لے لی اور انہوں نے کہا کہ ہم دس منٹ کی بریک کے بعد واپس آ جائیں گے لیکن 25 منٹ کی بریک کے بعد ججز کورٹ روم میں واپس آئے۔

کورٹ روم میں آئے تو بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پیٹیشن کے قابلِ سماعت نہ ہونے پر دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 209 کے بعد 211 آتا ہے اور اگر شو کاز نوٹس جاری ہو جائے تو پھر 211  لگ جائے گا اور پھر آپ نوٹس نہیں دے سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ اس کو دیکھ تو سکتی ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک دفعہ 211 حرکت میں آ گئی تو اس سے پہلے والی 209 تک جو کچھ ہوا وہ ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ   صدر ریفرنس بھیجے تو انکوائری کی ضرورت نہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شو کاز ہو گیا تو ہر حال میں 211 کی پابندی کرنی ہوگی۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ یہ کیس عدلیہ کی آزادی۔ خود مختاری اور غیر جانبداری کا ہے اور اگر یہ معاملہ آپ کی مرضی سے چلا تو کل کوئی بھی اٹھ کر ججز کے خلاف شکایت لگائے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم میں شدید بے چینی ہے اور یاد رکھیں پاکستان کا ماضی اچھا نہیں ہے۔ یہاں ایگزیکٹو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا رہا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ہم کسی شخص یا ادارے کے خلاف نہیں۔ ہم آئین اور قانون کے ساتھ ہیں اور اگر آئین اور قانون کا ساتھ دیتے ہوئے ہماری جان بھی گئی تو کوئی پروا نہیں۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں کچھ چیزیں سنگین تھیں اور اس کیس میں اس سے بھی سنگین ہیں اور اگر ہم فیصلہ لکھنے پر آئے تو اس پر ضرور بات کریں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دھیمی آواز میں کہا کہ سر آپ ضرور لکھ سکتے ہیں، بیرسٹر فروغ نسیم نے دلیل دی کہ سر ہمارے ریفرنس میں مواد تھا اور اس میں جان تھی تو ایس جی سی نے شو کاز نوٹس جاری کیا لیکن اگر آج آپ ایک فیصلہ کر کے اس ریفرنس کو اڑا دیتے ہیں تو پھر سوال اٹھیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ اگر کارروائی کے طریقے میں نقائص ہیں تو کیا وہ نقائص نظر انداز کر کے ایس جی سی صرف ریفرنس کو دیکھے گی؟ اور نقائص کو اہمیت نہیں دے گی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ ایک دفعہ شوکاز نوٹس جاری ہو گیا تو ریفرنس کی کوئی اہمیت نہیں اور شو کاز پر ہی معاملہ آگے چلے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جی سر میرا کیس یہی ہے۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر بولے کہ انہوں نے کہا کہ ایس جی سی کے سامنے ایگزیکٹو نہیں، ساتھی جج کا کنڈکٹ تھا تو انہوں نے ایگزیکٹو کی بدنیتی کو نہیں دیکھا ہوگا؟

بیرسٹر فروغ نسیم اس پر جواب دیا کہ نہیں سر وہ دیکھ سکتے تھے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ نہیں، انہوں نے نہیں دیکھا ہوگا۔ بدنیتی یہی عدالت دیکھے گی۔

بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل ختم ہونے کے بعد جب سماعت ختم ہونے لگی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک جو ویڈیو لنک پر موجود تھے، وہاں سے روسٹرم پر آ گئے۔ ججز نے ان سے ایف بی آر والی پیشکش پر رائے مانگی۔ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ میں نے اس کیس میں اپنا وکالت نامہ اس لئے جمع کروایا تھا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا کیس ہے اور میرے مؤکل بھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ میرٹ پر فیصلہ دیں، چاہے جو بھی دیں۔

منیر اے ملک کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے مؤکل جج تب تک بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے جب تک ان پر یا ان کی اہلیہ پر ٹیکس چھپانے کا الزام ہے۔

مزید سماعت کل صبح تک ملتوی کر دی گئی۔
مزیدخبریں